• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوچار ہفتے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’’اب کسی ڈاکو کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہو گا،کسی کو وی آئی پی جیل نہیں ملے گی‘‘۔ بےشک پروڈکشن آرڈر کا قانون بنیادی انصاف کے خلاف ہے۔ مجرم چاہے کوئی بھی ہو، اس کے ساتھ سلوک برابری کی سطح کاہونا چاہئے۔

عمران بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ امیر اور غریب کےلئے قانون ایک ہونا چاہئے۔ جہاں بادشاہ کیلئے اور قانون ہوتا ہے اور نوکر کےلئے اور، وہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔

مگر افسوس پنجاب کے وزیر قانون نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پہلاکریڈٹ جس بات کالیا وہ یہی پنجاب اسمبلی میں ’’پروڈکشن آرڈر ‘‘ کا قانون تھا۔ پہلے یہ قانون صرف قومی اسمبلی کے لئے تھا۔ ایم پی ایز کےلئے نہیں ہوتا تھا۔میرا مشورہ ہے کہ انہیں اس قانون پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔

یہ عمران خان کے وژن کے مطابق نہیں۔اس کے علاوہ وزارتِ قانون نے جو کام کئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ خاص طور پر حرف ِتحسین فردوس عاشق اعوان کے لئے جنہوں نے وزارتِ قانون کو یہ پریزنٹیشن کرنے پر تیار کیا اور راجہ بشارت کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی۔

عمران خان نے عثمان بزدار کو فردوس عاشق اعوان جیسی تجربہ کار، آزمودہ اور ذہین سیاست دان کی کمک بھیج کر قلعہ پنجاب اور زیادہ مضبوط کردیاہے۔

عثمان بزدار کی جڑیں جیسے جیسےمضبوط ہوئیں، اپوزیشن کے خواب ویسے ویسےچکنا چور ہوئے۔اپنی بقا کیلئے 2 سال پہلے تک جدوجہد کرتا ہوا عثمان بزدار آج مکمل طور پرپُر اعتماد نظر آرہا ہے اورپنجاب بچائو تحریک چلانے والی اپوزیشن پریشان دکھائی دے رہی ہے۔

اپوزیشن کو ایک طرف کورونا وائرس لے ڈوبا ہے تو دوسری عثمان بزدار۔ کورونا سے لڑنے کی حکومتی حکمت عملی عالمی سطح پر تسلیم کی گئی ہے، اس پر پنجاب میں عثمان بزدار نے عمل کرایا۔ ہزاروں لوگ کی زندگیاں بچائی گئیں، کورونا کو لوگوں کا معاشی قتل کرنے سے روکا گیا، پاکستان کی تاریخ کا پہلا ریلیف پیکیج انصاف امداد پروگرام شروع کیا گیا اور تو اور کورونا جیسی بیماریوں اور خطرات سے نمٹنے کیلئے محکمہ صحت کی کیپسٹی بلڈنگ کی گئی۔

دنوں کے اندر بی ایس ایل تھری لیب قائم کی گئیں تاکہ پورےپنجاب میں کورونا ٹیسٹ کی سہولیات مہیا کی جاسکیں، اسی ہفتے دو مزید لیبارٹریوں کی ملتان اور رحیم یار خان کیلئے منظوری دی گئی۔ اس وقت اپوزیشن جن حقوق کی بات کررہی ہے وہ ان کے دور حکومت میں عوام کو نہیں ملے۔ مثال کے طور پر پچھلے ادوار میں سڑکیں بنتیں تو صرف لاہور میں بنائی جاتیں، اور بنی بنائی سڑک پر پھر سڑک بنا دی جاتی۔

البتہ اگر سڑکوں کا رخ پنجاب کے کسی اور شہر کی طرف ہوتا بھی تو اس میں عوامی فلاح کی بجائے ذاتی مفادات اور مخصوص حلقوں کے علاقے شامل ہوتے۔ عثمان بزدارنے حکومت سنبھالتے ہی ’’نیا پاکستان۔ منزلیں آسان ‘‘منصوبے کا آغاز کیا۔

اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں پنجاب کے دیہات میں 15ارب روپے کی لاگت سے 1236کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر و بحالی پر کام کیا گیا۔ اس منصوبے میں پنجاب کے دور دراز کے وہ علاقے بھی شامل تھے جہاں کارپیٹڈ سڑکوں کا تصور ایک خواب سمجھا جاتا تھا۔

یہ کام نہ صرف اپنے مقررہ وقت میں مکمل ہوا بلکہ وزیر اعلیٰ صاحب نے اس کے دوسرے مرحلے کا آغاز بھی کردیا ہے۔ فیز 2میں 14ارب کی لاگت سے 1076کلومیٹر طویل فارم ٹو مارکیٹ روڈز کا جال بچھایا جارہا ہے اور مجموعی طور پر اس فیز کی تکمیل سے 154دیہی سڑکوں کی تعمیر وبحالی مکمل ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ روڈ اسیسمنٹ مینجمنٹ سسٹم کا اجرا کیا گیا ہے جس کے تحت روڈز کی تعمیر و بحالی کا نظام انتہائی شفاف بنایا گیا ہے۔ اب سڑکیں ٹھیکے دینے کی غرض سے نہیں بلکہ میرٹ پر بن رہی ہیں۔

روڈ اسیسمنٹ سسٹم سڑکوں کا ڈیٹا بینک بناتا ہے اور سڑکوں کی جیو ٹیگنگ عمل میں لائی جاتی ہے، چنانچہ مانیٹرنگ کے دوران جو سڑکیں خستہ حال ثابت ہوتی ہیں ان کی نشاندہی کے بعد ترجیحی بنیادوں پر ان علاقوں پر کام کا آغاز کیا جاتا ہے۔

ملک میں ایڈز کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیش نظر پنجاب حکومت نے ایڈز کے مریضوں کیلئے انصاف میڈیسن کارڈ کا اجرا کیا ہے۔ ایڈز کے مریض اب پنجاب بھر میں قائم 26 سینٹرز سے ایڈز کی ادویات یہ کارڈ دکھا کر مفت حاصل کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس اور ٹی بی جیسی مہلک بیماریوں سے دوچار مریضوں کو بھی با آسانی مفت ادویات کی فراہمی کیلئے انصاف میڈیسن کارڈ کا اجرا کردیا گیا ہے۔ اب رجسٹرڈ مریض پنجاب بھر میں قائم ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال یا رورل ہیلتھ سینٹر سے مفت دوائیاں حاصل کر سکتے ہیں۔

جدید ڈیجیٹل نظام کی مدد سے کمپیوٹرائزڈ کارڈز کا اجرا نہ صرف بہترین ای گورننس کے اصولوں کا عکاس ہے بلکہ یہ اقدامات عوامی ترجیحات کی بھی عکاسی کررہے ہیں۔

پنجاب حکومت نے حال ہی میں سوشل سیکورٹی کے اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز عام مریضوں کے علاج کیلئے بھی کھول دیے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت ان اسپتالوں کے ان ڈور اور آوٹ ڈور شعبہ جات میں عام مریضوں کے لئے علاج کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔

مزید یہ کہ انسپکٹر لیس رجیم اور سیلف اسیسمنٹ سکیم متعارف کروانے کیلئے وزیراعلیٰ نے محکمہ لیبر سے سفارشات طلب کر لی ہیں، دی کمپنیز پرافٹس (ورکرز پارٹیسی پیشن) ترمیمی بل کے حوالے سے بھی آرڈیننس کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

لاہور میں بین الاقوامی معیار کا بس ٹرمینل بنایا جارہا ہے، ایسے جدید ٹرمینل باقی شہروں میں بھی بنائے جائیں گے، لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کا دائرہ کار پنجاب بھر میں پھیلایا جائے گا اور الیکٹرک بسوں کا آغاز بھی جلد کیا جارہا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کے تحفظ کےلئےپنجاب میں 3نیشنل پارکس بنائے جا رہے ہیں جن میںکلرکہار سالٹ رینج میں13,700ایکڑ پر محیط نیشنل پارک 8,740ایکڑ پر محیط کھیڑی مورت اور 38,874ایکڑ پر پِبی رسول نیشنل پارک شامل ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین