• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج 11/ مئی ملک کی تاریخ کا اہم دن یوں ہے کہ آج ”ایک خوف اور ایک امید کی فضا میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات ہیں۔ فوج بھی ہر شہر میں موجود ہے۔ وطن اور جمہوریت دشمن مٹھی بھر لوگ ہیں جو دہشت گردی کر کے پُر امن فضا کو ”خوف و ہراس“ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بم دھماکوں میں ایک بڑی تعداد میں سیاسی کارکن، بے گناہ لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ طرہ اس پر یہ ہے کہ متعلقہ حکام فون پر سیاسی رہنماؤں کو اطلاع دیتے ہیں کہ محتاط رہیں حملہ کا خطرہ ہے، دہشت گردوں کا نیٹ ورک ابھی تک توڑا جا سکا ہے نہ ہی بہتر سکیورٹی مہیا کی جا سکی ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے ان تمام غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیا۔ سیاسی کارکنوں اور عوام نے تمام تر خطرات کے باوجود جس صبر و تحمل، تدبر، برداشت کا مظاہرہ کیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ کسی اور جمہوری ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی تو مبالغہ نہیں ہو گا یہی ایک بات اس کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام بڑے باشعور ہیں۔ انہیں ووٹ کی قوت کا ادراک ہے۔ ووٹ کی پرچی سے وہ آج منتخب نمائندوں کا بھرپور احتساب کریں گے۔ یہ کہا جاتا ہے اور بڑی حد تک درست بھی ہے کہ اگر عوام نے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیا تو بڑی تبدیلی کا نعرہ اور خواب پورا ہو سکتا ہے۔جو کسی انقلاب سے کم نہ ہو گا۔ ملک میں 1977ء سے اب تک سات عام انتخابات ہوئے ہیں۔ جن پر انگلیاں اٹھی ہیں۔ 1977ء میں تو ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لئے تحریک چلائی گئی ۔ جس میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ زخمی اور معذور ہوئے لیکن سیاسی قیادت نے جمہوری رویہ کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک بدترین آمریت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ یہ پہلا انتخاب ہے جس کے بارے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صاف شفاف اور غیر جانبدار ہوں گے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت نئی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔ قومی سطح پر مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ ہے جبکہ ایم کیو ایم، اے این پی، جمعیت علماء اسلام (ف) جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق) کے امیدوار میدان میں ہیں۔ دینی، علاقائی جماعتوں کے علاوہ بڑی تعداد میں آزاد امیدوار انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کی سیاسی جماعت تحریک تحفظ پاکستان نے بھی چند امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ مسلم لیگ کے 7 گروپ میدان میں ہیں ان میں عوامی مسلم لیگ، مسلم لیگ (ضیاء) مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) پیپلز مسلم لیگ، مسلم لیگ ہم خیال، مسلم لیگ (ف) شامل ہیں۔
پنجاب میں اگرچہ تمام قابل ذکر جماعتوں کے امیدوار موجود ہیں لیکن کانٹے دار مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور گورنر احمد محمود کے صاحبزادگان امیدوار ہیں۔ اندوہناک خبر یہ ہے کہ 9 مئی کو یوسف رضا گیلانی کے چھوٹے بیٹے کو دن دہاڑے اغواء کر لیا گیا ہے اس کے باوجود یوسف رضا گیلانی نے انتخابی مہم جاری رکھی۔ الیکشن سے صرف تین روز قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک حادثہ میں زخمی ہو گئے جس کی وجہ سے عمران خان کی طوفانی مہم رک گئی۔ اس کے باوجود آخری جلسے سے ہسپتال میں بستر سے انہوں نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ ان کی اپیل ہے کہ ووٹ سے تبدیلی لائی جائے۔ اس عام انتخاب کی خاص اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام جماعتوں کی الیکشن مہم اخبارات، ٹی وی چینلز کے اشتہارات کے ذریعہ چلائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے کسی بڑے لیڈر نے انتخابی جلسوں سے خطاب نہیں کیا۔ بلکہ دہشت گردوں کی دھمکیوں اور حکومتی ذرائع کی اطلاعات دی تھیں کہ بلاول بھٹو زرداری کو وطن میں واپس نہیں آنے دیا گیا۔ اشتہارات ہی میں ان کی شکل نظر آتی رہی۔ کراچی میں ایم کیو ایم، اے این پی کو دیوار سے لگا دیا گیا دہشت گردی میں انتخابی مہم جاری رکھنا ممکن نہ رہی۔ خیبر پختونخوا میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدواروں کے جلوس پر بم دھماکے کئے گئے۔ کئی امیدوار بھی زخمی ہوئے تاہم سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم ہر قیمت پر جاری و ساری رکھی کیونکہ سب کو یہ احساس ہے کہ جمہوری سسٹم کو قائم رکھنے کے لئے انتخابات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے کچھ بھی ہو۔ جتنے چاہے بم دھماکے ہوں۔ خود کش حملہ کئے جائیں انتخابات ضرور ہونے چاہئیں اور صرف اس طرح ”ووٹ کی طاقت“ سے ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس تاریخی حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ 1970ء کے فری اینڈ فیئر الیکشن نتائج سے ”اُدھر تم اِدھر ہم“ کا ایسا تصور ابھرا کہ وطن دو لخت ہو گیا۔ اس لئے ووٹروں کی ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے۔ انہیں بہت چھان پھٹک کر ووٹ کا استعمال کرنا ہے اور اچھی شہرت و کردار کے ایسے شخص اور جماعت کو ووٹ دینا ہے جو ملک میں تبدیلی لانے اور درپیش مسائل کے سدباب کا واضح ایجنڈا رکھتی ہے… جس نے جو بویا ہے اسے آج کے دن کاٹنا ہو گا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہی پرانے چہرے، نیا لباس“ پہن کر دوبارہ منتخب ہو جائیں گے… جبکہ عوامی حلقے اس کی تصدیق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ عوام بڑے باشعور ہیں وہ اب ”دلفریب نعروں“ کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہو!
تازہ ترین