بالآخر دہشت گردی کا پُل صراط عبور کرکے آج پاکستان انتخابی عمل سے سرخرو ہونے جا رہا ہے۔ وہ دہشت گرد جنہوں نے مخصوص جماعتوں کے حامیوں کے گھروں میں یہ پمفلٹ بھی پھینکے تھے کہ وہ نہ صرف اپنے گھروں، گاڑیوں اور محلوں سے اُن پارٹیوں کے جھنڈے اُتار دیں۔ بلکہ انتخاب کے دن ووٹ ڈالنے کیلئے بھی گھروں سے نہ نکلیں۔ بصورت دیگر وہ اپنے جان و مال کے تحفظ کے خود ذمہ دار ہونگے۔ دوسری طرف دہشت گردوں نے پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کئے گئے افسران اور عملے کو بھی خبردار کیا ہے کہ وہ پولنگ کے روز یعنی آج اپنے فرائض کی انجام دہی سے باز رہیں۔ اب اِن دو دنوں میں ووٹنگ سے لے کر نتائج آنے تک انتخابی عمل کتنی جانوں کا نذرانہ مانگتا ہے۔ میڈیا اس سلسلے میں ہمیں با خبر رکھے گا۔ تاہم اِس بات پر عوام میں مختلف خیال پایا جاتا ہے کہ یہ دہشت گردی کے ذریعے مخصوص نتائج کے حصول کے لئے یہ سارا کام صرف دہشت گرد ہی کررہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے میں وہ پارٹیاں خود بھی ملوث ہیں جنہیں بظاہر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاکہ اُنہیں عوام اُن کی گزشتہ پانچ برسوں کی کارکردگی پر پرکھنے کی بجائے ہمدردی کا ووٹ دیں۔ اِس بات میں کہاں تک صداقت ہے۔ اِس کا فیصلہ تو آج عوام کا گھر سے نکل کے ووٹ ڈالنے کا عمل کر ہی دے گا۔ البتہ مسئلے کو سمجھنے کیلئے یہی کافی ہے کہ جو انتہا پسند قوتیں اِس بات کا دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ مخصوص پارٹیوں کو اِس انتخابی عمل سے روکیں گی۔ وہ پھر خود کش یا ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے اِس بات کا عملی ثبوت بھی دیتی ہیں اور بعد میں اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہیں۔ تو پھر یہ بات ماننے میں کیا چیز مانع ہوگی کہ یہ کام وہ انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں نہیں کررہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اِس دہشت گرد نیٹ ورک سے کچھ مخصوص قوتیں یہ کام کروا رہی ہیں۔ تو پھر اُس مخفی ہاتھ کو بھی اِسی نیٹ ورک کا حصہ سمجھنا چاہئے جو اِس انتخابی عمل کے نتائج کو مخصوص شکل اور توازن میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ کمزور مخلوط حکومت لا کے سیاستدانوں کی نا اہلی کو مزید بے نقاب کیا جائے۔ اور وہ قوتیں باآسانی ملک کا مستقبل ڈکٹیٹ کرسکیں۔ اِن انتخابات میں اگر ملک میں رونما ہونے والی نظریاتی تقسیم کا 1970ء میں ہونے والے انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو 43 برس قبل ہونے والے انتخابات میں عوام کے اندر نظریاتی تقسیم کی بنیاد معاشی نعرے تھے۔ اور مغربی پاکستان میں عوام نے معاشی نعرے کو ووٹ دیا تھا اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو مسترد کردیا تھا۔ جبکہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں عوامی لیگ نے بنگالی نیشنلزم اور قومی خود مختاری کا جذبہ اجاگر کرکے فتح حاصل کی تھی اور سیاست میں لیفٹ اور رائٹ (Left and Right) کی تقسیم نمایاں تھی۔ لیکن حالیہ انتخابات میں یہ تقسیم نہ صرف غائب ہے بلکہ کسی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت کا کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے۔ نہ کسی نے زمینوں کے حد ملکیت یہ بات کی ہے نہ ہی سرمایہ، صنعت اور کاروبار اور دیگر جائیداد پر کسی اصلاحات اور حد بندی کا ذکر کیا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا پانی کے ایشو پر کوئی موقف نہیں ہے۔ نہ ہی کسی بھی جماعت نے اُن آئینی اصلاحات کو متعارف اور رائج کرنے کا کہیں تذکرہ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک میں فرقہ واریت کا Mind set کنٹرول کیا جائے۔ ملک کے دفاعی بجٹ اور فلاحی اور ترقیاتی بجٹ میں کیا توازن ہوگا۔ اس پر سب خاموش ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں نہ تو کسی بھی ریاستی ادارے، بشمول فوج کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا چاہتی ہیں نہ ہی جاگیردار، سرمایہ دار و صنعتکار کو کسی بھی طرح چھیڑنا یا ناراض کرنا چاہتی ہیں۔ جس سے یہ بات تو واضح ہے کہ تمام پارٹیاں بنیادی طور پر ’سٹیٹس کو‘ کی حامی ہیں اور صرف نمائشی تبدیلی کے نعرے پر عوام کو خوش کرنے پر اکتفا ہے اور اُسی نمائشی تبدیلی کو انقلابی تبدیلی کے لیبل لگا دیئے گئے ہیں۔ جو پارٹیاں لبرل سیاست کے حوالے سے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ جنہیں سیاست کے میدان میں کمزور یا خارج کرنے کے لئے مذہبی انتہا پسند قوتیں دھمکیوں اور دھماکوں کا استعمال کررہی ہیں۔ یہ پارٹیاں بھی لبرل اور روشن خیال سیاست کو بدنام کررہی ہیں۔ کیونکہ وہ لبرل اور روشن خیال سیاست کے نعرے کی آڑ میں اپنی گزشتہ نا اہلی اور کرپشن کو چھپا رہی ہیں۔ تاہم یہ بات تو اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ملک میں خالص مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کا انتخابی حوالے سے کوئی قابل ذکر وجود نہیں ہوگا۔ وہ جماعت اسلامی ہو یا جے یو آئی یا کوئی اور مذہبی سیاسی جماعت۔ البتہ گزشتہ دس، بارہ سالوں میں ملک میں مذہبی سوچ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور مذہبی قوتیں مستقبل میں زیادہ ڈکٹیٹ کرنے اور اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہونگی۔ لگتا ہے اُسی مذہبی رجحان میں اضافے کے پیش نظر تحریک انصاف نے بھی اپنے نعرے میں تبدیلی کی ہے۔ ابھی چند روز پیشتر ہی عمران خان نے اپنے جلسوں میں پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللّٰہ“ کہنا شروع کیا۔ وگرنہ پہلے یہ نعرہ صرف جماعت اسلامی لگاتی تھی۔ یوں تو اس نعرے کا کھلا مطلب نفاذ شریعت ہے۔ اس نعرے کے بعد کسی دوسرے سیاسی پروگرام کی جگہ اور گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ گو کہ یہ نعرہ لگا کے عمران خان بھی وہی تاریخ کو مروڑنے کی غلطی کررہے ہیں جو ان سے پیشتر حکمران طبقہ کرتا آرہا ہے۔ کیونکہ یہ نعرہ نہ تو کبھی بانی پاکستان محمد علی جناح نے لگایا، نہ ہی پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کی زبان پر کبھی یہ نعرہ سنا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ نعرہ آج کسی نہ کسی مسلم لیگ کا بنیادی نعرہ ہونا چاہئے تھا۔ نہ کہ جماعت اسلامی کا جو اُس وقت جناح، مسلم لیگ اور وجود پاکستان کے بنیادی مخالفین میں سے تھے۔ عمران خان کو اِس Bluff Game کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔ اور وہ جس نوجوان نسل کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ اُسے گمراہ کرنے کے جرم میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی تو اپنی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ہی لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے گئے۔ جس نے اُن کی عوام کے دلوں میں ہمدردی کو کم کیا ہے۔ اِسی لئے پیپلزپارٹی 1970ء کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو اپنے انتخابی مہم کی بنیاد بنائی رہی ہے۔ جس کا آج نتیجہ نکل آئے گا۔ لگتا یوں ہی ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے 2008ء کے انتخابات میں حاصل کی گئی نشستوں کا نصف بھی حاصل کرلے تو اِسے اُن کی بڑی کامیابی سمجھنا چاہئے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ہمدردی کا ووٹ بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اِس بارے میں ثبوت کے ساتھ ایسا کہیں نہیں کہا گیا۔ البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایم کیو ایم 2008ء والے انتخابی نتائج کو برقرار رکھے گی۔ عام پیشگوئیاں تو یہی کہہ رہی ہیں۔ آج سب سے بڑا مینڈیٹ تو مسلم لیگ (ن) کو ملے گا۔ لیکن وہ بھی دو تین اتحادی ساتھ ملائے بغیر حکومت نہیں بنا سکے گی۔ اِس طرح کوئی بھی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آسکے گی۔ یہ ایک کمزور اور مخلوط حکومت ہوگی۔ جس میں عوام کسی ایک پارٹی کے پروگرام کو ٹیسٹ نہیں کر سکیں گے۔ گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت کی طرح وہی Reconciliation کا دور چلتا رہے گا۔ لیکن ملکی معیشت اور امن و امان کی صورتحال اُسی طرز کے مزید پانچ سال دہرانے اور برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ادھر عمران خان بھی وزیراعظم سے کم پر ٹھنڈے ہوکر نہیں بیٹھیں گے۔ تاہم لگتا یوں ہی ہے کہ نتائج ایک بار پھر اُن قوتوں کو یکجا ہونے پر مجبور کریں گے جو گزشتہ کئی برسوں سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھیں۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ اِس تمام تر بحرانی کیفیت کی قیمت تو عوام نے اپنے انہی مسائل میں الجھے رہ کے چکانی ہے۔ اگر یہ بے چینی زیادہ بڑھ گئی تو تیسری قوت کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ اب کی بار ایک نہیں دو دو ریاستی ادارے تیسری قوت بننے کی کوشش کریں گے۔ اگر دونوں ادارے متحارب ہوگئے تو پھر صرف طاقت ہی باقی رہ جائے گی اور سب کچھ لپیٹا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن اِس سب کچھ میں عوام بے چارے کیا کریں وہ تو بہرحال عوام ہیں۔ غریب ہیں۔ یہی کچھ اُن کا مقدر ہے۔ بقول فیض:
” ہے چور نگر یاں مفلس کی گر جان بچی تو آن گئی“