• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جب2018 کے الیکشن ہوئے تو اس وقت عوام نے یہ سوچ کر ایک نئی پارٹی کو آزمایا یا یوں کہیے کہ مقتدر قوتوں نے ایک نئی پارٹی کو موقع دینے کا فیصلہ کیا تاکہ آزمائے ہوئے کی بجائے ایک نئی پارٹی کو موقع دیا جائے اور ملک کو ترقی دینے کے معاملات میں کو بہتر کرنے کی کوشش کی جائے مگر حقیقت میں ایسا ہوا کچھ نہیں ہے پریشانی کا یہ عالم ہے حکمرانوں کو بھاری مینڈیٹ امن و امان کی صورتحال تعلیم اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے دیا گیا تھا لیکن نہ تو امن و امان قائم ہو سکا اور نہ ہی ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو سکی۔ 

گرم تعلیم اور صحت ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جب ایک ماہ میں متعدد مرتبہ سول سروس کے ذہین آفیسر تبدیل کئے جائیں گے تو اسے ہمارے بھولے عوام حکومتی پالیسی سمجھیں یا ان کی زبان و بیان میں تضاد تصور کریں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس سے بالکل مختلف اور منفرد بات کرتے نظر آتے ہیں زبان پرکچھ ہوتا ہے ذہن اوردل میں مختلف خیالات چل رہے ہوتے ہیں جبکہ عمل کرنے کی صورت حال بالکل متضاد نظر آتی ہے۔ 

کورونا کی وبا اپنی جگہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عام آدمی کو ملنے والی سہولتوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، خوراک، رہائش، صاف پانی کی دستیابی، قابل کاشت رقبے میں کمی کے مسائل سے عام آدمی کے لئے ناقابل برداشت مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ 

بے روزگاری میں اضافہ، غذائی اجناس کی درآمدات میں اضافہ، ماحولیاتی مسائل، غربت ،بے چینی اور جرائم کی شرح میں اضافہ نے عام آدمی کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے مگر عوام کو دو وقت کی روٹی کی جدوجہد نے پریشان کر رکھاہے، اسے تو احتجاج اورآواز بلند کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔بقول شاعر :

یہاں تیرے آنسوؤں کی قیمت نہیں ہے

شکوہ کرنا یہاں کی روایت نہیں ہے

یہاں کا ہے دستور خاموش رہنا

جو گزری ہے دل پہ کسی سے نہ کہنا

یہ دن کاٹ ہنس کے

یہاں لوگ بس کے اجڑتے رہے ہیں

خدا کے بندوں پنجاب کی سطح پر تعلیم کا ہی حال دیکھ لو، سیکرٹری اسکولز اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کی دو اہم اسامیاں خالی ہیں۔ بڑی تعداد میں کالجز میں پرنسپلز نہیں ہیں ۔سیکڑوں اسکولوں میں ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز کی اسامیاں خالی ہیں۔ 

متعدد تعلیمی بورڈز میں مستقل چیئرمین سیکریٹریز اور کنٹرولر نہیں نظام کو ایڈ ہاک ازم کی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے۔ کیا حکومت کو پورے صوبے میں اہل افسران نہیں مل رہے ہیں یا پھر اسےحکومتی عدم دلچسپی اور نااہلی کا نام دیا جائے، اس کے بعد کیا کارکردگی ہوسکتی ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو ان مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ لوگوں کی ایک ٹیم بنانی چاہیے اور ڈے ٹو ڈے اس ٹیم کی کارکردگی کو جانچنا چاہئے۔

پی ڈی ایم اس وقت حکومت کے خلاف ایک بڑی تحریک شروع کر چکی ہے بلکہ اب تو یہ تحریک آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس جلسے کی میزبانی پاکستان مسلم لیگ ن کے ذمہ ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) مریم نواز شریف کی قیادت میں اس جلسے کی کامیابی کے لئے بھرپور تیاری کر رہی ہے اور پنجاب میں عمومی طور پر اور لاہور میں خصوصی طور پر کارکنوں کو اس جلسے میں شرکت کے لئے متحرک کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سےایوانوں کے شور میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ 

اگر پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دینے پر متفق ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی کرگزرتی ہیں تو پھر نمبر گیم کو انتہائی اہمیت حاصل ہوگی جس پر اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد یقیناً پہلے غور کرے گا۔ قواعد و ضوابط کے مطابق اگر اسمبلی کے 40 فیصد سے کم ارکان مستعفی ہوتے ہیں تو پھر حکو مت ضمنی الیکشن الیکشن کروا سکتی ہے اور اس سے اپوزیشن کو الٹا نقصان ہی ہوگا کیونکہ اگر ضمنی الیکشن ہوتے ہیں تو پھر برسراقتدار پارٹی کو بہرحال پہلے سے بہتر نتائج مل سکتے ہیں اور اپوزیشن قدرے بددلی کا بھی شکار ہوگی۔ 

اگر اپوزیشن 40 فیصد ارکان اسمبلی کے استعفے دلوانے میں کامیابی ہو جاتی ہے تو پھر نئے عام الیکشن کروانا لازمی ہوں گے مگر ان میں کس کو کامیابی حاصل ہوگی اس میں بہت سے ان دیکھے عوامل بھی اثر انداز ہوں گے اور کسی کے لئے بھی ان میں کامیابی اتنی آسان نہیں ہوگی۔ پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں کسی منزل کی تلاش میں ہیں یہ سب جانتے ہیں اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ کسی بھی مذہب، نظریے، قوم اور ملک کو چلنے کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 1۔ اخلاص، 2۔ تنظیم، 3۔ معیشت اور 4 علم۔

آج حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں میں سے کسی کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ سوائے اپنی سیاست اور مفادات کے جن کے لئے وہ ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ بعض ناتجربہ کاری سے بڑے ہولناک نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں اس لئے طرفین کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک دفعہ کہیں پڑھا تھا کہ بعض اوقات ڈاکٹرز (پوری کمیونٹی نہیں) اپنی لا پرواہی سے موت اور زندگی کے درمیان فاصلے کو کم کردیتے ہیں۔ 

آپریشن ٹیبل پر مریض کو دیکھتے ہوئے سینئر سرجن نے نئے سرجن سے کہا آپ نے یہ کیسا آپریشن کیا ہے؟ نئے سرجن نے چونک کر کہا، کیا اس کا آپریشن کرنا تھا، میں نے تو اس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ خدانخواستہ کہیں ایسی صورتحال پیدا نہ ہو جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین