• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

ایک مثبت تجویز پیش کی تھی۔ عوام نے تو بہت سراہا مگر پی ڈی ایم یا سرکار کسی طرف سے کوئی منفی یا مثبت اشارہ نہیں ملا۔ اپنے 60سالہ تجربات کے تناظر میں مجھے تو یہ اپوزیشن بھی حکومت کی طرح سلیکٹڈ ہی لگ رہی ہے۔ ادھر ایک دھن ہے۔ این آر او نہیں دوں گا۔ ادھر ایک ضد ہے کہ اس حکومت کو گھر بھیجنا ہے۔ بہت محنت ہورہی ہے۔ مریم نواز نے رات دن ایک کر رکھا ہے کہ 13دسمبر کو مینار پاکستان کا میدان بھر جائے۔ شاید وہیں کہہ دیا جائے کہ چلو چلو ریڈ زون اسلام آباد چلو۔ اتنی تگ و دو۔ مقصد بہت ہی محدود۔ پارٹی عوام کی طاقت اور کروڑوں روپے صرف یک وقتی ہدف کے لیے۔ کاش ان کوششوں کا ہدف ایک جمہوری تسلسل اور ایک سسٹم کا قیام ہوتا۔ حکومت بدلنے کا آئینی طریقہ تو الیکشن ہی ہیں۔ یہی منصوبہ بندی ۔ قوت اور دانش انتخابی تیاریوں کے لیے مختص کی جائے صرف اپنے اپنے صوبے میں نہیں، سیاسی پارٹیوں کو پورے ملک میں منظّم ہونا چاہئے۔ میرا مشاہدہ اور تحقیق تو یہی بتاتی ہے کہ اب تک جمہوری نظام میں استحکام اور تسلسل سیاسی پارٹیوں کی کمزور تنظیم کے باعث نہیں آسکا۔ آفاقی اصول ہےSurvival of the fittest ۔ جس ادارے نے اپنے آپ کو منظّم کیا ہے،وہ طاقت ور ہے۔

اس وقت اپوزیشن اور حکومت دونوں انارکی پھیلارہے ہیں۔ عالمگیر وبا کورونا کا تقاضا تو ایک نظم و ضبط۔ حفاظتی تدابیر پر عمل ہے۔ کتنے قیمتی اثاثے ضائع ہورہے ہیں۔ صاحبان علم و فضل۔ اہل قلم۔ علما۔ اساتذہ۔ وکلاء ۔ منصف۔ کورونا کے ہاتھوں سانس کی ڈور الجھنے پر ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔بہت سے نوجوان اپنی پارٹی کی وابستگی۔ بہت سے بغض عمران میں سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ لیکن ایک موج تہ نشیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ اب تو چینلوں پر براہ راست گفتگو بھی اسی حوالے سے ہورہی ہے۔ اصل مسئلہ ہے اچھی حکمرانی نہ ہونا ۔ جو نہ تو سیاسی حکومتوں کے دور میں ہوسکی نہ فوجی حکمرانوں کے۔

میں تو یہ دیکھتا رہا ہوں کہ فوج منظم ہے۔ اس لیے وہ غالب رہتی ہے۔ فارسی میں کہتے ہیں۔ خانۂ خالی رادیو می گیرد۔خانہ خالی کیوں ہے۔ جمہوریت اور خاص طور پر پارلیمانی جمہوریت کا مضبوط ستون سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں۔ وہ ہی ملک کو ایک سمت دیتی ہیں۔ پاکستان جیسے مختلف زبانوں۔ نسلوں۔ اور قومیتوں پر مشتمل ملک میں تو خاص طور پر ملک گیر سطح پر منظّم سیاسی پارٹیاں بہت ضروری ہیں۔ تاکہ ایک قومی سوچ حاصل ہوسکے۔ صرف جمہوریت نہیں ریاست برقرار رکھنے کے لیے بھی ایسی پارٹیاں ناگزیر ہیں۔ جن میں ہر علاقے۔ ہر زبان۔ ہر قبیلے۔ ہر فرقے کی نمائندگی ہو۔

ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کی طاقت اور کندھا وزیر اعظم ہائوس کی دیواریں پھاندنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پارٹی قائد ایک بارمسند نشیں ہوجائے تو پارٹی کا مصرف ختم ہوجاتا ہے۔ تازہ ترین مثال تحریک انصاف ہے۔ 18اگست 2018کو عمران خان کی حلف برداری کے بعد وزیر اعظم نظر آتے ہیں یا وفاقی وزراء۔ وزرائے اعلیٰ۔ مگر پی ٹی آئی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت منزل نہیں ہوتی۔ یہ تو پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کرنے کا راستہ ہوتی ہے۔ اصل منزل تو ایک مستحکم خوشحال۔ فلاحی مملکت ہوتی ہے۔ ایک سسٹم ہوتا ہے۔ جس کے تحت ملک کے ہر شہر۔ ہر ضلع ہر تحصیل ۔ ہر گائوں میں رہنے والے انسان کے مسائل بلا امتیاز مذہب۔ قبیلہ۔ زبان۔ نسل از خود حل ہوتے رہیں۔ دن رات سارے وزراء اسی ہدف کے حصول میں مصروف رہیں۔ حکومت کے اقدامات بولنے چاہئیں۔ وزیر اعظم۔ وزراء نہیں۔ نہ ہی صبح سے شام تک ترجمان بولتے نظر آئیں۔ آج کل تو لگتا ہے کہ حکومت کا کام صرف اپوزیشن لیڈروں اور بالخصوص مریم نواز کے حملوں اور جملوں کا جواب دینا رہ گیا ہے۔

عوام کی اکثریت مہنگائی سے تنگ ہے۔ کورونا وبا کے پھیلائو اور صنعتوں کمپنیوں کے مالکان کی پتھر دلی کے باعث بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ احساس پروگرام کے تحت ایک بار بارہ بارہ ہزار روپے تقسیم ہوئے ہیں۔ کیا بڑے بڑے کنبے کئی مہینے تک اس رقم سے اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں؟ لوگ خبریں اس لیے سنتے ہیں کہ انہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نوید ملے۔ لیکن وہاں مردانہ زنانہ ترجمان اپوزیشن پر تبریٰ بھیجتے نظر آتے ہیں۔ اس سے تو لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں مل سکتی۔

اپوزیشن کی خدمت میں بھی عرض کرنا ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں 1970 سے حکومتیں کرتی آرہی ہیں۔ کوئی دور بھی ایسا قابل رشک نہیں ہے کہ سنجیدہ طبقہ یہ سمجھے کہ ان کے واپس آنے سے ملک میں اچھی حکمرانی آسکے گی۔ مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی بلا شبہ بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ لیکن انہیں منظّم قومی سیاسی پارٹیاں نہیں کہا جاسکتا۔ پی پی پی ملک گیر پارٹی تھی۔ مگر وہ سندھ تک محدود ہوگئی۔ مسلم لیگ(ن) پنجاب کی تھی پنجاب کی ہے۔ فوج پر بھی یہی تنقید ہوتی تھی کہ وہ صرف پنجاب کی ہے مگر اب اس میں تو سندھ۔ بلوچستان۔ کی بھی نمائندگی ہوگئی ہے۔ مریم نواز ایک ایسی شخصیت بن کر سامنے آرہی ہیں کہ وہ پورے ملک میں مسلم لیگ(ن) کو آسانی سے منظّم کرسکتی ہیں۔ پی پی پی کو ملتان کے جلسے سے موقع ملا ہے۔ وہ پنجاب میں از سر نو تنظیم کرے ۔ مستحکم جمہوریت کی ضمانت منظّم سیاسی پارٹیاں ہوسکتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن۔ اختر مینگل کو بھی ملک گیر دورے کرکے اپنی پارٹیاں موثر بنانی چاہئیں۔ تحریک انصاف کو بھی اپنے عوامی رابطے از سر نو زندہ کرنے چاہئیں۔ 1985 سے Electables ۔ قابل انتخاب ارکان اسمبلی کی وجہ سے بھی پارٹیوں کی حیثیت ثانوی ہوگئی ہے۔ اب تو سوشل میڈیا موجود ہے۔ اس کی مدد سے بھی پارٹیوں کی موثر تنظیم ہوسکتی ہے۔ ہر شہر گائوں میں پارٹی کی شاخ ۔دفتر۔ ہر سال ضلعی۔ صوبائی۔ قومی کنونشن۔ نہ صرف پارٹی کو طاقت دیں گے۔ جمہوری نظام کو بھی استحکام ملے گا۔پارٹی کارکن فیصلہ سازی میں شریک ہوں گے۔ اس طرح سیاسی ادارے بالادست اور غیر سیاسی اپنے اپنے آئینی دائرے میں محدود ہوتے جائیں گے۔ کسی کے اشارے پر اتحادوں کے قیام اور حکومت گرانے سے جمہوریت ہمیشہ کمزور ہوتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین