• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بزرگ کہتے ہیں کہ حکمرانی رب تعالیٰ کی جانب سے اگرچہ ایک نعمت اور انعام ہے لیکن بڑی آزمائش بھی ہے کہ حکمران کو ملک کے عوام کے دکھ سکھ میں نہ صرف شریک ہونا ہوتا ہے بلکہ ان کے مصائب و مشکلات کا سدباب کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے پچھلے زمانے میں حکمران کو ”قوم کا باپ“ کہا جاتا تھا اور یہ کچھ عجب بھی نہ تھا کہ حکمران اپنے ملک و قوم کا رکھوالا ہوتا ہے۔ عام انتخابات بڑے کٹھن مراحل سے گزر کر منعقد ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات نے خوف و ہراس پیدا کر رکھا تھا اور بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ ٹرن اوور کم ہو گا… لیکن عوام نے جس جوش و خروش سے ووٹ ڈالے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میاں نواز شریف ان کے ساتھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے بھی یہ کہہ کر انہیں مبارکباد دی ہے کہ ان کی جماعت قومی اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی لیکن جس طرح ایم کیو ایم کے قائد نے مبارکباد دی ہے وہ لب و لہجہ کسی صورت مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا عوامی مینڈیٹ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ”پگ کو داغ “ نہیں لگنے دیا جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ”کھلے دل“ سے عوامیمینڈیٹ کا نہ صرف احترام کرنا ہو گا ۔ ملک جن اندرونی بحرانوں سے دوچار ہے اس سے نکالنے میں بھرپور تعاون کرنا ہو گا۔ اگر سیاسی جماعتوں نے جمہوری حق ادا نہ کیا تو انہیں اس کا جواب دینا ہو گا۔ میاں نواز شریف نے کامیابی کے فوراً بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے تمام تلخیوں کو فراموش کر کے سب کو دعوت دی ہے کہ وہ ان سے تعاون کریں۔ میاں شہباز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پہلے ہی عوام کا خادم تھا اب نوکر بن کر خدمت کروں گا۔
تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ اصولوں پر مسلم لیگ (ن) کسی سے سمجھوتہ نہیں کرے گی کوئی سودے بازی نہیں ہو گی بلکہ بلا تفریق قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے گا، جس کا میاں شہباز شریف نے قوم سے وعدہ کیا ہے اور اسے اب پورا کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے اب کسی مصلحت کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم سب کو اس بات کا ادراک ہے کہ ملک کو اس وقت دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ، مالی بحران کا سامنا ہے۔ ڈالر سو روپے تک پہنچ گیا ہے ملکی خزانہ خالی ہے کراچی، بلوچستان میں دہشت گردی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اگرچہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی ہے لیکن سندھ، خیبر پختوانخوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہونے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں کوئی بڑا بریک تھرو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تاہم خیبر پختوانخوا اسے قابل ذکر کامیابی حاصل ہوئی ہے جہاں غلام احمد بلور، اسفند یار ولی، اعظم ہوتی، امیر مقام جیسے رہنما شکست کھا گئے ہیں۔ پنجاب میں تو ووٹ کی طاقت سے بڑے بڑے بت پاش پاش ہو گئے ہیں۔ وہ جو کل زمین پر پاؤں نہیں رکھتے تھے ”زمین بوس“ ہو گئے ہیں ان میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، وفاقی وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ ، راجہ ریاض، میاں منظور وٹو، بیگم راؤ سکندر شامل ہیں۔
یہاں تک لاہور سے عمران خان بھی کامیاب نہیں ہو سکے اور ان کی ”نئی صبح“ کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ تاہم یہ تو ہوا ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کو بھی متحرک اور بیدار کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ عمران خان اسے ”مثالی صوبہ“ بنا کر اسے مثال بنا سکتے ہیں۔ جبکہ میاں نواز شریف کی یہ بات درست ثابت ہو گئی کہ جب 11/ مئی کو شیر دھاڑے گا تو بلا، تیر، سائیکل غائب ہو جائیں گے۔ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) کا جس طرح گھیراؤ کیا گیا ہے۔ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
یہاں تک قلم کے بعض شہسواروں نے ”اپنی وفا داری“ثابت کرنے کے لئے ”ذاتیات“ کوبھی ہدف تنقیدبنایا۔ کون سا الزام ہے جو مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر عائد نہیں کیا گیا۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ان کے خلاف اشتہاری مہم چلائی گئی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا کہنا تھا کہ یہ جو چاہیں کہیں لکھیں ہم اس کا جواب نہیں دیں گے۔ اخلاق و تہذیب کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ اور شاید اس صبر کا صلہ ہے کہ رب کائنات نے انہیں ایک بار پھر حکمرانی کا تحفہ دیا ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ ملک کو کرپشن، اقربا پروری، لوٹ مار سے نجات دلائیں ”مفاہمت، مصلحت“ کو قریب نہ پھٹکنے دیں۔ عوام کی قوت ان کے ساتھ ہے کسی ”ایرے غیرے“ کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میاں صاحب! آگے بڑھیں اور اس بار سب کا احتساب کر کے ملک کو ”کرپشن فری“ بنا دیں۔ سب سے پہلے کراچی جو منی پاکستان ہے وہاں امن و امان قائم کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا ممکن ہے صرف ایک ہی وعدہ پورا کر دیا جائے کہ کراچی میں سیاسی جماعت کے عسکری ونگز کو ختم کر دیا جائے۔ ایک بزرگ صحافی کی حیثیت سے میری اتنی سی التجا ہے کہ جو ہو گیا ہے اسے بھول کر ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک میں لوٹ مار کلچر نے سیاسی ”چھلانگوں“ کے رویہ کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اب بھی ماڈل ٹاؤن میں ایسے افراد کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
ملک کے سلگتے ہوئے مسائل خصوصاً معاشی بحران کے سدباب کے لئے مالیاتی ماہرین کی ایک ٹیم سے ایک گرینڈ ایجنڈا مرتب کیا جائے اور پارلیمانی روایت کے تحت اسے پارلیمنٹ میں لا کر مکمل مشاورت کر کے اس پر عملدرآمد کیا جائے میاں صاحب آپ کو رب کائنات نے ملک و قوم کی خدمت کرنے کی ایک بار پھر توفیق عطا کی ہے۔ اس کے لئے آپ آگے بڑھ کر سب کو گلے لگا لیں تاہم انہیں نہیں جو نقاب اوڑھ کر ایک بار پھر ایوان اقتدار کی چوکھٹ پر آ گرے ہیں۔ سیاسی طور پر مفاہمت اور ہم آہنگی کے ایسے نئے دور کا آغاز کر دیں جس میں آپس کی رنجشیں ختم ہو جائیں اور ”میثاق جمہوریت“ حقیقت کا روپ دھار لے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی ”اقتدار کی چھتری“ پر آ بیٹھے اسے گلے لگایا جائے۔ گالی دینے والوں کو معافی دینا اور اس سے درگزر کرنا بڑی اچھی بات ہے اور بلند کردار کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن اس طرح وہ جو ”قومی مجرم“ ہیں۔ جن کی بد اعمالی سے قوم کو یہ اندھیرے دن دیکھنے پڑے ہیں ان کو بھی معاف کر دیا جائے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کے مترادف ہو گا۔ قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی کا حساب لینا ہو گا۔ یہ عوامی مینڈیٹ ایسے لٹیروں کا یوم حساب بھی ہے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ ملک اس وقت جن اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ ”عوامی مینڈیٹ“ کا احترام کیا جائے۔ اس طرح ہی جمہوری روایات، اخلاقی اقدار کو فروغ ملے گا۔
تازہ ترین