• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں معاشی کارکردگی پر کچھ اچھی خبریں سننے کو ملیں جن میں ایف بی آر کی ہدف سے زیادہ ریونیو وصولی، ایکسپورٹ میں اضافہ، افراط زر اور تجارتی خسارے میں کمی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کلیمز کی فاسٹر نظام کے تحت ادائیگی، DLTLکیلئے رقم مختص کرنا، ٹیکسٹائل بالخصوص ہوم ٹیکسٹائل، فارما سیوٹیکل، سرجیکل گڈز اور گارمنٹس مصنوعات کی طلب اور ایکسپورٹ میں اضافہ کورونا وبا کے دوران وہ اچھی خبریں ہیں۔ جو آج کے کالم میں ملکی معاشی کارکردگی اور جائزے کا سبب بنی ہیں۔

پاکستان خوش قسمتی سے اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے کورونا وبا کے دوران تیزی سے اپنی صنعتی سرگرمیاں بحال کی ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک بالخصوص بھارت میں کورونا کی تشویشناک صورتحال کے باعث عالمی خریدار بھارت اور ان ممالک، جہاں کورونا کی وبا شدید ہے، کو ایکسپورٹ آرڈرز دینے میں گریز کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کچھ ٹیکسٹائل آرڈرز پاکستان منتقل ہوئے ہیں جبکہ امریکہ کی چین پر تجارتی پابندیوں اور اضافی کسٹم ڈیوٹیوں کے باعث بھی چین کے کچھ آرڈر پاکستان منتقل ہوئے ہیں۔ حکومت نے ایکسپورٹ سیکٹرز کے بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کی ہے۔ ایف بی آر کے 23نومبر 2020تک 73ارب روپے سیلز ٹیکس اور 70ارب روپےانکم ٹیکس کی فاسٹر نظام کے تحت ایکسپورٹرز کو ریفنڈ کرنے، اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ 7فیصد کرنے، LTFFاور ایکسپورٹ ری فنانس کے حجم میں اضافہ کرنے سے ایکسپورٹرز کی مالی لاگت میں کمی آئی ہے جس سے ہم بین الاقوامی منڈی میں کسی حد تک مسابقتی سطح پر آئے ہیں جس کا اندازہ ہمیں نئے ایکسپورٹ آرڈرز میں اضافے سے ہوتا ہے حالانکہ روپے کی قدر میں اضافے سے ڈالر 168روپے سے کم ہوکر 160روپے ہوگیا ہے جو ایکسپورٹرز کیلئے اچھی خبر نہیں لیکن مستحکم کرنسی ملک کیلئے خوش آئند ہے۔

پاکستانی ایکسپورٹس گزشتہ 30مہینوں میں پہلی بار نومبر 2020میں 7.2فیصد اضافے سے 2.156ارب ڈالر تک پہنچی ہیں اور اس دوران ملکی مجموعی ایکسپورٹس بڑھ کر 9.732ارب ڈالر ہوچکی ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ 9.545ارب ڈالر تھیں جس پر میں وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود اور ایکسپورٹرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں نے چیئرمین ایف بی آر اور ممبر اِن لینڈ ریونیو کو بتایا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کے نئے فاسٹر نظام میں کچھ بے ضابطگیاں ہیں جن کو دور کرکے ملکی ایکسپورٹس کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے کمرشل ایکسپورٹرز کو اس نظام میں ان کی ایکسپورٹ کا 12فیصد سے زیادہ سیلز ٹیکس ریفنڈ نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ اپنا پورا اِن پٹ استعمال کر تے ہیں اور کمرشل ایکسپورٹرز کی انوینٹری اور لوکل سیل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ریفنڈز روکنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے علاوہ فاسٹر سسٹم میں ایکسپورٹ سے 12فیصد زائد روکے گئے سیلز ٹیکس کے ریفنڈکا کوئی میکانزم نہیں جس کی وجہ سے ان چھوٹے کمرشل ایکسپورٹرز کے روکے گئے ریفنڈز ہمیشہ کیلئے پھنس جاتے ہیں جو فاسٹر نظام کے منافی ہے اور کمرشل ایکسپورٹرز کا کیش فلو متاثر ہوتا ہے۔ میں نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی اور ممبر اِن لینڈ ریونیو ڈاکٹر اشفاق احمد کی توجہ اس بے ضابطگی کی طرف دلائی جسے انہوں نے دور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

اِس سال 1.8ملین افرادنے ٹیکس ریٹرنز فائل کئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 4فیصد زیادہ ہے اور ایف بی آر نے 63فیصد زیادہ یعنی 22ارب روپے ریونیو وصول کیا جس کا کریڈٹ ایف بی آر ریفارمز کو جاتا ہے۔ ایف بی آر نے رواں مالی سال گزشتہ 5مہینوں میں اپنے ہدف 1669ارب روپے کے مقابلے میں 1688ارب روپے ریونیو وصول کیا جو ہدف سے 3.8فیصد زیادہ ہیں جس میں انکم ٹیکس 577ارب روپے، سیلز ٹیکس 743ارب روپے، ایکسائز ڈیوٹی 104ارب روپے اور کسٹم ڈیوٹی 264ارب روپے ہے۔ کمشنر اِن لینڈ ریونیو شکیل کسانہ کے مطابق اس بار کمپنیوں سے کوئی ایڈوانس ٹیکس وصول نہیں کیا گیا۔ رواں مالی سال کے پہلے 5مہینوں میں سیلز ٹیکس کی مد میں 80ارب روپے ریفنڈ کی ادائیگیاں کی گئیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ صرف 41ارب روپے تھیں۔ ایف بی آر کی انتظامی اصلاحات سے اس دوران 27ارب روپے کی اسمگل شدہ گڈز ضبط کی گئیں جبکہ گزشتہ مالی سال میں یہ صرف 18ارب روپے تھیں۔ ایف بی آر کا نیا ہدف ٹیکس اصلاحات، آٹومیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول سے ٹیکس فائلرز کی تعداد کو بڑھانا ہے۔ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔

کورونا وبا کے دوران جب دنیا کی معیشتیں بحران اور تنزلی کا شکار ہیں، پاکستانی معیشت کو بھی بے شمار چیلنجز درپیش ہیں لیکن اِن حالات میں ایف بی آر کا اپنے ریونیو ہدف سے زیادہ ٹیکس وصول کرنا قابلِ ستائش ہے جس پر میں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی، ممبر اِن لینڈ ریونیو ڈاکٹر اشفاق احمد اور اُن کی ٹیم کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر پاکستان کے ایکسپورٹرز بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے اس مشکل وقت میں نہ صرف ایکسپورٹس میں اضافہ کیا بلکہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں بھی اہم کردار ادا کیا جو بزنس کمیونٹی کا ایف بی آر پر اعتماد کا مظہر ہے جس کو ہمیں مزید بڑھانا ہوگا۔ میری چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی سے درخواست ہے کہ وہ سیلز ٹیکس ریفنڈ کی طرح ایکسپورٹرز کو کسٹم ریبیٹ اور DLTLکی بروقت ادائیگیاں یقینی بنائیں تاکہ پاکستانی ایکسپورٹرز کورونا وائرس کے دوران حاصل ہونے والے نئے مواقع سے فائدہ اُٹھا سکیں۔

تازہ ترین