2014میں الجزیرہ سمیت کئی عالمی نشریاتی اداروں نے بلغاریہ میں طبی عملے اور ڈاکٹرز کی معاشی اور سماجی صورتحال پر ایک رپورٹ نشر کی۔ اس رپورٹ کے مطابق کم تنخواہوں اور مراعات کی وجہ سے ہر سال پانچ سو سے زائد لوگ بلغاریہ چھوڑ کر دیگر ممالک میں منتقل ہورہے تھے۔ بلغاریہ میں ڈاکٹرز اور طبی عملے پر تشدد کے کچھ واقعات بھی سامنے آئے۔ ڈاکٹر بلغاریہ میں اپنے مستقبل کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اور جب کورونا وائرس کی پہلی لہر نے بلغاریہ سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو تب جا کر لوگوں میں طبی عملے اور ڈاکٹرز کی اہمیت اور ان کے بارے میں حساسیت پیدا ہوئی۔ میں اس مختصر تحریر کے ذریعے قارئین کی توجہ پاکستان کے حوالے سے ایک ایسے ہی اہم مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے بلغاریہ کا کیس آپ کے سامنے رکھنا ضروری تھا۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران بھی پاکستان میں ڈاکٹرز کے خلاف سازشی تھیوریز عروج پر تھیں۔ مین اسٹریم میڈیا پر کچھ اہم شخصیات نے بھی ڈاکٹرز کے خلاف عجیب و غریب کہانیاں بغیر تصدیق کے پھیلا دیں جس کے نتیجے میں پاکستانی ڈاکٹرز اور طبی عملہ مایوس ہوا۔ ہماری تہذیب میں ڈاکٹرز کو مسیحا کہا جاتا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز نے ہر مشکل وقت میں فرنٹ لائن ہیرو کا کردار ادا کیا۔ کورونا وائرس کے دوران بھی یہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ اپنی جان موت کے منہ میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔ اکثر عیدین اور تہواروں کے موقع پر بھی گھر نہیں جا سکے کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ ممکنہ طور کہیں ان سے وائرس ان کے پیاروں کو نہ لگ جائے۔ کورونا وائرس کے دوران گلگت کے ڈاکٹر اسامہ جمیل سے لیکر کراچی تک، پینتالیس سے زائد ڈاکٹروں اور طبی عملے کی قیمتی جانیں کورونا وائرس کا شکار ہو گئیں۔ پاکستان میں اکثر اسپتالوں میں لڑائی جھگڑے، ڈاکٹرز اور طبی عملے پر تشدد، تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی شکایات میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اکثر اوقات اسپتالوں میں طبی عملے اور سہولتوں کی کمی کی وجہ سے کوئی بڑا حادثہ ہو جاتا ہے تاہم اس حادثے کی ذمہ داری ڈاکٹرز پر نہیں ہوتی۔ تیمار دار اور لواحقین ڈاکٹرز اور طبی عملے سے ہاتھا پائی شروع کر دیتے ہیں۔ تشدد کیا جا تا ہے۔ گزشتہ برس لاہور میں اسپتال پر حملے کے واقعے کے مناظر انتہائی تکلیف دہ تھے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے مریض کو انتہائی مشکل ترین صورتحال میں اسپتال لیکر آتے ہیں ۔ اسپتال میں باقی مریض بھی اسی حالت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز بھی کم وسائل کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان مسیحاؤں کا احترام کرنا چاہیے اور انتہائی صبر اور سکون کے ساتھ انہیں کام کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے پر تشدد کے رُجحان نے اگر زور پکڑ لیا تو ڈاکٹرز مریضوں کا علاج نہیں کریں گےجیسا بلغاریہ میں سماج کی جانب سےحد سے زیادہ عدم تعاون کی وجہ سے ڈاکٹرز اور طبی عملے نے اپنا کام چھوڑ دیا تھا۔ اگر ہم نے بھی اپنے ہاں ڈاکٹرز اور طبی عملےسے عدم تعاون کا رویہ برقرار رکھا تو ہمارے ملک میں بھی طبی عملہ ہڑتال پر جا سکتا ہے اور اس کا نقصان براہ راست عوام کو ہی ہوگا۔ اس مثال سے سبق سیکھتے ہوئے ہم سب کو چاہیے کہ ڈاکٹر حضرات اور طبی عملے سے مکمل تعاون کریں۔ ان کی ہدایات پر عمل کریں۔ سازشی نظریات کو مکمل طور پر مسترد کر دیں۔ ان سازشی نظریات کی وجہ سے ہی لوگ کورو نا وائرس کا شکار ہوتے ہوئے بھی اسپتالوں کا رخ نہیں کرتے اور اپنا علاج نہیں کرواتے۔ اس وجہ سے انسانیت کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ مہذب شہری ہونے کے ناتے محکمہ صحت اور ڈاکٹرز کی جانب سے صحت عامہ کی جو ہدایات دی گئی ہیں ان پر مکمل عمل پیرا رہیں ڈاکٹرز اور طبی عملے کا احترام کریں اور ان پر بھروسہ کریں۔ اسپتالوں کو مکمل طور پر سکون کا مرکز بنائیں۔ اگر کوئی شکایت ہے متعلقہ عملے یا اتھارٹی سے رابطہ کریں۔