’’ہماری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے… امّی کی اصل شہزادی تو مینوہے‘‘۔ عاشر نے رامین کی دو، دو فراکس دیکھ کر شکوہ کیا، کیوں کہ آمنہ بیگم اس کے اور حاشر کے لیے ایک ،ایک سوٹ اور رامین کے لیےدو فراکس لائی تھیں۔ ’’بھائی! ایسا کریں دوسری فراک آپ لے لیں،میرے لیے ایک ہی کافی ہے‘‘۔ رامین نے پیار سے کہا تو امّی اور حاشر دونوں ہی ہنسنے لگے۔ ’’دیکھو تو بہن کا دل کتنا بڑا ہے…‘‘ امّی نے عاشر کو جتلایا ’’بہنیں تو اللہ کا تحفہ ہوتی ہیں، ان سے جتنی محبت کرو، جتنا خیال رکھو کم ہے۔ یہ تو آنگن کی چڑیاں ہیں۔ایک دن اُڑ جائیں گی۔ اور پھر کہیں اور آشیاں بنالیں گی۔‘‘ یہ کہتے کہتے آمنہ بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اچانک ڈور بیل بجی تو تینوں بچّے باہر دروازے کی جانب لپکے اور وہ کمرے میں بکھری چیزیں سمیٹنے لگیں۔
یونہی ہنستے کھیلتے، لڑتے جھگڑتے کب بچپن بِیت گیا ،پتا ہی نہ چلا کہ وقت کب کس کے لیے رُکتا ہے، وہ تو ریت کی مانند بس مُٹھی سے پھسلتا ہی جاتا ہے۔ عاشر اور حاشر، رامین سے بڑے تھے۔ خوش قسمتی سے فا رغ التّحصیل ہوتے ہی اچھی جگہ ملازمتیں مل گئیں تو آمنہ بیگم نے بھی بیٹوں کی جھٹ منگنی ،پٹ بیاہ کر دیا۔ رامین ابھی یونی وَرسٹی کے آخری سیمسٹر میں تھی، جب کہ آمنہ کے شوہر ناصر صاحب ریٹائر ہوچُکے تھےاور اب ان کا زیادہ وقت گھر ہی پر گزرتا ۔اور پھر… ایک رات وہ ایسے سوئے کہ پھر کبھی نہ اُٹھے۔ گھرکے سربراہ کی یوں اچانک موت نے گھر والوں کو شدید صدمے میں مبتلا کر دیا۔ آمنہ بیگم کی تو دنیا ہی اُجڑ گئی تھی۔
بچّے بھی کتنے ہی مہینوں تک سنبھل نہ سکے، لیکن پھر آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آنے لگی۔ اب آمنہ بیگم کو دن رات رامین کی فکر ستارہی تھی ،وہ جلد از جلد اُس کی ذمّے داری سے سبک دوش ہونا چاہتی تھیں۔ یوں تو رامین کے کئی رشتے آئے، لیکن ان کے عجیب و غریب مطالبات نے آمنہ بیگم کوپریشان کر دیا تھا۔ وہ اکثر کہتیں کہ ’’اب وقت بہت بدل گیا ہے۔ لوگ اپنی روایات، اقداربھول کربس اسٹیٹس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
ایسے میں ہم سفید پوش گھرانوں کی بیٹیاں کہاں جائیں ، بس اللہ پاک میری رامین سمیت ہر بیٹی کےنصیب اچھے کرے۔‘‘ وہ دن، رات بیٹی کے اچھے نصیب کے لیے دُعاگو رہتیں۔ بالآخر، اللہ نے ان کی سُن لی اور ان کی پیاری گڑیا کے لیے ایک معقول رشتہ مل گیا۔ لڑکا برسرِروزگار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا، سو اللہ کا نام لے کر ہاں کردی ۔ لڑکے والوں نے جہیز وغیرہ سے متعلق کوئی فرمایش کی تھی، نہ دھوم دھام سے شادی کرنے کی۔ سو، جلد ہی سادگی سےنکاح اورچند ماہ بعد گھر سے رخصتی ہوگئی۔
رامین کے جانے کے بعد آمنہ بیگم کو حقیقتاً تنہائی نے آن گھیراکہ شوہر کے جانے کے بعد رامین کی رفاقت و محبت ان کا سب سے بڑا سہاراتھی۔ دونوں ماں ،بیٹیاں ایک دوسرے کی دَم ساز و غم گسار تھیں۔ وہ ماں، بیٹی کم اور سہیلیاں زیادہ لگتی تھیں۔بہوئوں کی اپنی اپنی مصروفیات تھیں، دونوں کے بچّے بھی ابھی چھوٹے تھے۔ لہٰذا آمنہ بیگم جہاںتک ممکن ہوتا دونوں کا ہاتھ بٹاتیں، پوتے، پوتیوں کے لاڈ اُٹھاتیں یا عبادت میں مصروف رہتیں۔ رامین ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے بھی جلدی نہیں آپاتی تھی۔البتہ، ہر مہینے کا آخری وِیک اینڈ میکے گزارتی اور اُس دن آمنہ بیگم کاسارا وقت کچن میں گزرتا۔رامین اور باقی سب گھر والوں کی پسند کا کھانا بناتیں، گھر کی اور اپنے کمرے کی خاص طور پر صفائی کرواتیں۔ گل دانوں میں تازہ پھول لگاتیں کہ رامین کو پھولوں سے عشق تھا۔
ان کا بس نہیں چلتا کہ بیٹی کی آمد پر دنیا جہاں کی خوشیاں اس کے قدموں میں رکھ دیں۔ رامین ماں کی محبتوں پر نہال توہوتی ، مگر ناراضی کا اظہار بھی کرتی کہ’’امی! میرے لیے خود کو اتنا کیوںتھکاتی ہیں۔مَیں مہمان تھوڑی ہوں کہ اتنا اہتمام کیا جائے۔‘‘ ’’میرے دل سے پوچھو…‘‘وہ نم آنکھوں سے مُسکراتیں۔’’ مہینے میں ایک بار آتی ہو ، سال بھر میں صرف بارہ دن میرے پاس رہتی ہو ۔ تمہیں کیا خبر کہ مجھے مہینے کے اس آخری ہفتے کا کتنی شدّت سے انتظار رہتا ہے۔‘‘’’پیاری امّی! دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ ہر ہفتے آپ کے پا س آؤں، آپ سے ، ڈھیروں باتیں کروں، مگر جوائنٹ فیملی کے باعث ممکن نہیں ہو پاتا۔
اب مَیں صرف آپ کی بیٹی نہیں، ایک گھر کی بہو بھی ہوں ۔‘‘ ’’میری بٹیا! تمہاری طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی رہے،تم اپنے گھر میں خوش رہو، میرے لیے یہی بہت ہے۔ اظفربہت اچھا لڑکا ہےاور مجھے خوشی ہے کہ وہ تمہارا بہت خیال رکھتا ہے، تو بس مَیں تمہاری طرف سےمطمئن رہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے رامین کی پیشانی چوم کر دُعا دی۔رامین بچپن ہی سےانتہائی سُلجھی ہوئی، گُھلنے مِلنے والی، حسّاس شخصیت کی مالک تھی۔ حالاں کہ مہینے میں ایک ہی بار میکے آتی تھی، مگر پھر بھی آرام کرنے کی بجائے بھابھیوں کا ہاتھ بٹاتی۔ اُسے محسوس ہوتا کہ بھابھیوں کو اس کا آنا کچھ زیادہ اچھا نہیں لگتا،لیکن وہ کبھی ماں کے سامنے ان باتوں کا تذکرہ نہ کرتی۔
یوں ہی وقت گزرتا جا رہا تھا اور پھر ایک روز آمنہ بیگم بھی مختصر علالت کے بعد ابدی سفر پر روانہ ہو گئیں۔ ماں کا جانا رامین سے بر داشت ہی نہیں ہو پارہا تھا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ امّی بھی، ابو کی طرح جلد ساتھ چھوڑ جائیں گی۔ بھرے پُرے میکے پر بیاباں کا گماں ہورہا تھا ۔ ماں کی جدائی دل کو ایک گہرا اور کبھی نہ بھرنے والا زخم دے گئی تھی۔ کتنے ہی بوجھل دن گزار کر وہ سُسرال واپس آئی، تو بات ،بے بات امی یاد آجاتیں۔دل میں ٹیسیں سی اُٹھتیں۔نہ جانے کتنے دن ایسی ہی کیفیت میں گزر گئے، تو ایک وِیک اینڈ اس نے اظفر سے کہا کہ ’’ مجھے امّی کی طرف چھوڑ دیں۔‘‘ وہ کچھ دیرماں کے کمرے میں گزارنا ، ا ن کی خوش بُو محسوس کرنا چاہتی تھی۔ اُسے لگ رہا تھا کہ وہ ان کی چیزیں چُھو ئے گی ، کمرے کی صفائی ستھرائی کرے گی، تو شاید اُس کےدل کو کچھ سکون آئے گا، مگر وہاں پہنچی تو کمرے کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔
فرنیچر بھی نیا اور مکین بھی۔ وہ تویہ سب دیکھ کر گنگ ہی ہو گئی۔ ’’وہ دراصل علینہ اب بڑی ہورہی ہے تو اسے الگ کمرے کی ضرورت تھی‘‘۔ بڑی بھابھی نے اپنی بیٹی کو ساس کا کمرا دینے کی وجہ بتاتے ہوئے آنکھیں چُرائیں۔ ’’ہاں ،اگر تمہیں یہاں رہنا ہے توعلینہ ایک دن کے لیے میرے ساتھ سوجائے گی۔ ‘‘رامین نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں، اُس کے گلے میں آنسوئوں کا گولا پھنس گیا ’’امّی کی چیزیں کہاں ہیں؟‘‘ ’’فرنیچر اور کپڑے تو مَیں نے دے دلا دئیے۔ ہاں، کچھ سامان اسٹور میں رکھوا دیا تھا ، چاہو تودیکھ لو۔ ویسے بھی کون سا خزانہ تھا ، جو سنبھال کر رکھتے۔‘‘
وہ کندھے اُچکاتے ہوئے لاپروائی سے بولیں۔رامین خود کو بمشکل گھسیٹتی ہوئی اسٹور تک لائی۔ ایک سوٹ کیس میں کچھ کپڑے اور پرانے البم موجود تھے۔ وہ کتنی دیر دھندلائی آنکھوں سے سب دیکھتی رہی، کب اندھیرا ہوا اسے پتا ہی نہ چلا۔’’پھپھو! آپ کب تک یہاں بیٹھی رہیں گی؟ ماما آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ علینہ نے رامین کو آواز دیتے ہوئے کہا۔’’ہاں، تم چلو مَیں بس آرہی ہوں۔‘‘ رامین نے بھرائی آواز میں جواب دیا۔ ’’پھر تم نے بتایا نہیں ،آج رُ کوگی یا…؟؟‘‘ بڑی بھابھی نے اُسے اسٹور سے باہر آتا دیکھ کر سوال کیا۔’’نہیں، مَیں اپنے گھرواپس جائوں گی‘‘ وہ جلدی سے بولی۔دفتر سے واپسی پر اظفر اُسے لینے آگئے۔ وہ ماں کی باقی ماندہ چیزیں ساتھ لیے، بوجھل دل سے گھر لوٹ آئی۔
چند روز بعد اُسے خوش خبری ملی کہ وہ اُمید سے ہےاور پھر اللہ نے اسے ایک پیاری سے بیٹی سے نوازا۔ جس دن اس کی بیٹی،فاریہ اس کی گود میں آئی، رامین کو امّی بے تحاشا یاد آئیں کہ انہیں رامین کی اولاد کوگود میںکِھلانے کی کتنی آرزو تھی، مگر جواللہ کو منظور۔ وہ اسپتال کے کمرے میں فاریہ کو سینے سے لگائے گھنٹوں بے آوازروتی رہی۔ سوا مہینہ مکمل ہوا تو اس نے اظفر سے کہا ’’آج دفتر سے جلدی آجائیے گا۔ امّی کی طرف جائوں گی…‘‘ ’’ہاں ضرور، تم تیار رہنا‘‘۔ یہ کہہ کر اظفر نے فاریہ کو پیار کیا اور دفتر کے لیےنکل گیا۔ شام میں وہ حسب ِوعدہ جلدی آگیا تورامین فاریہ کو لے کر گاڑی میں آبیٹھی۔
گاڑی مخصوص رستوں پر رواں دواں تھی اور رامین کہیں کھوئی ہوئی تھی۔چونکی اس وقت ،جب اظفر نے گاڑی اس کی امّی کےگھر کی گلی میں موڑی۔ ’’یہ کہاں جارہے ہیں آپ…؟ گاڑی واپس موڑیں، مجھے امّی سے ملنا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے شہرِ خموشاں کی طرف اشارہ کیا ، جہاں اس کی ماں محوِ خواب تھی۔ اظفر نے چُپ چاپ گاڑی ریورس کی اور وہ لوگ قبرستان کے راستے پر چل پڑے۔