• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا ویکسین کے استعمال کے ساتھ ہی معاشی اشارے مثبت

رواں برس کے آغاز میں دنیا نے چین سے کورونا وبا پھیلتے دیکھی اور پھر چار ماہ کے اندر پوری دنیا اُس کی لپیٹ میں آگئی۔تاہم، اِسی سال کے آخری مہینے میں وہ ویکسین تیار ہوکر انسانوں کو لگنا شروع ہوگئی، جس سے کورونا سے بچائو ممکن ہے۔یوں جس وبا سے متعلق کہا جاتا تھا کہ’’ اب ایک طویل مدّت تک اس کے ساتھ زندگی گزارنی پڑے گی‘‘، اس سے محفوظ رہنا ممکن ہوگیا۔ چند ہفتوں پہلے تک بھی ہر طرف مایوسی تھی، مگر اب مایوسی کی فضا اُمید میں بدل چُکی ہے۔یاد رہے، ویکسین کی ممکنہ تیاری کی مدّت خود سائنس دانوں کے مطابق دو سال سے کم نہیں ہوتی۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے، جو جانوروں پر آزمائش سے گزرتا ہوا انسان تک پہنچتا ہے۔ 

دنیا کتنی تیز رفتار ہوچُکی ہے؟ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ دو برس کا کام چند ماہ میں ہوگیا۔ برطانیہ وہ پہلا مُلک ہے، جہاں کسی انسان کو کورونا وائرس کی ویکسین لگائی گئی اور امریکا دوسرا مُلک، جہاں یہ کام تیزی اور مکمل یک سوئی سے جاری ہے۔جب کورونا نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے، تو اُس وقت ایک طرف اموات اور متاثرین کی تعداد دنیا کو خوف زدہ کر رہی تھی، تو دوسری طرف، اس سے متعلق سازشی تھیوریز کی بھی بھرمار ہونے لگی، جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ کوئی بیماری نہیں، بلکہ ایک عالمی سازش ہے۔ یاپھر یہ کہ یہ بیماری تو ہے، مگر زیادہ خطرناک نہیں، اس کا مختلف ٹوٹکوں سے علاج کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو اس قسم کے قصّے، کہانیاں خُوب ہِٹ رہے۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ زیادہ تر ممالک میں لاک ڈائون کے سبب لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا، اِس لیے وہ اس قسم کی افسانوی باتوں کو مزے لے لے کر آگے پھیلاتے رہے۔تاہم، اس ماحول میں بھی ڈاکٹرز، طبّی عملے اور سائنس دانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنا کام نہ چھوڑا اور وہ اسی یک سوئی سے آج بھی اس وبا کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔طبّی عملے اور سائنس دانوں کے اِسی عزم نے دنیا کو وہ دن دِکھایا، جب برطانیہ میں ایک91 سالہ خاتون کو پہلی ویکسین لگا دی گئی۔ماہرین کے مطابق، انسانی جسم کے مدافعتی نظام یا’’ امیون سسٹم‘‘ کو ویکسین کے ذریعے مضبوط کیا جاتا ہے۔

یہ مدافعتی نظام، ایک طرف تو انسانی جسم کو وائرس کے مضر اثرات سے بچاتا ہے، تو دوسری جانب، اس میں موجود ٹی سیلز وائرس کو غیر مؤثر کردیتے ہیں۔اس طرح حملہ آور وائرس کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر ختم ہو جاتا ہے۔ جسے ویکسین لگائی گئی ہو، وہ وائرس کے حملوں سے تقریباً محفوظ ہو جاتا ہے۔پولیو کی ویکسین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اِس مرض سے ہمارے مُلک کو بہت نقصان پہنچا اور اس کے نقصانات معاشرے میں چلتے پِھرتے دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن ویکسین سے عوام کو اس مرض کے خلاف جو کام یابیاں حاصل ہوئیں، اُس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔بلاشبہ، اس ویکسین نے نسلوں کو معذور ہونے سے بچایا۔البتہ، پاکستان آج بھی اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں سے پولیو کیسز سامنے آرہے ہیں، وگرنہ دنیا بھر سے پولیو ختم ہو چُکا ہے۔

امریکا میں بھی دسمبر کے وسط سے انسانوں کو کورونا ویکسین لگانی شروع کردی گئی۔امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے اس کی ہنگامی طور پر منظوری دی، جو دنیا میں ادویہ کی منظوری کا سب سے معتبر ادارہ مانا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ڈاکٹرز اس کی منظوری کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ اب یہ دوا یا ویکسین بغیر کسی جھجک کے استعمال کی جاسکتی ہے۔برطانیہ میں ابتدائی طور پر چالیس لاکھ ویکسینز لگائی جائیں گی، جب کہ امریکا میں ان کی تعداد64 لاکھ بتائی جارہی ہے۔انھیں ایک تیز رفتار آپریشن کے ذریعے امریکا کی پچاس ریاستوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔خوش آیند بات یہ ہے کہ ویکسین پہلے معمّر افراد اور طبّی عملے کو لگائی جارہی ہے تاکہ اُنھیں خطرات سے محفوظ کیا جا سکے۔

عام طور پر پوچھا جاتا ہے کہ ویکسین سے فرد تو محفوظ ہوجائے گا، لیکن اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟ کورونا وائرس کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ کسی کو چُھونے اور سانس کے ذریعے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ وبا کسی ایک متاثرہ شخص سے چھے افراد تک منتقل ہوسکتی ہے۔ 

گویا اگر کوئی ایک فرد ویکسین لگانے سے محفوظ ہوجاتا ہے، تو اس کا مطلب چھے افراد کو محفوظ کرنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، مختلف حکومتوں نے ویکسین کی تیاری میں آٹھ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اِتنی بڑی اور فوری سرمایہ کاری اِس لیے بھی کی گئی کہ ویکسین کی قیمتوں کو عوام کی پہنچ میں رکھا جائے، کیوں کہ اگر سارا سرمایہ کمپنیز ہی لگاتیں، تو وہ اسے زاید قیمت ہی پر مارکیٹ کرتیں۔اس صورت میں ویکسین بہت منہگی پڑتی اور عام آدمی کے لیے اسے خریدنا مشکل ہوجاتا۔پھر یہ کہ ترقّی پذیر ممالک کے لیے بھی اس کی خریداری ایک چیلنج بن جاتی۔

یورپی ممالک، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے کمپنیز کو ویکسینز کے آرڈر دئیے ہیں، جب کہ پاکستان نے بھی ویکسین کی خریداری کے لیے ابتدائی طور پر 250 ملین ڈالرز مختص کر دئیے ہیں، جس میں یقیناً اضافہ کیا جائے گا، کیوں کہ آبادی بہت زیادہ ہے، لیکن حکومت کی اصل آزمائش اسے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں سے بچانا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں انسانی صحت کے معاملات میں بھی لالچ اور منافع خوری کی سوچ سبقت لے جاتی ہے۔ فی الحال، فائزر کے علاوہ مزید پانچ، چھے ویکسینز منظوری کی منتظر ہیں۔ اُن میں برطانیہ کی’’ آکسفورڈ ویکسین‘‘ بھی ہے، جس کے متعلق سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اُس کی کام یابی کا تناسب 70 سے 90 فی صد ہے۔موڈرنا ویکسین، امریکا میں تیار ہے، جب کہ چین اور روس کی ویکسینز بھی آخری مراحل میں ہیں۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ دو، تین ماہ تک چھے ویکسینز موجود ہوں گی۔ایک سال سے بھی کم عرصے میں طبّی سائنس کی یہ کام یابی غیرمعمولی اور انسانیت کی ایک بڑی خدمت ہے۔ طبّی ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے سال کا موسمِ بہار اپنے ساتھ معمول کی زندگی لائے گا۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کورونا ویکسین کیوں ضروری تھی اور یہ کیا تبدیلی لاسکتی ہے؟اِس بات کو بار بار دُہرانے کی ضرورت نہیں کہ کورونا وائرس نے دنیا کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حکومتوں اور طبّی ماہرین کے پاس کوئی ایسی مستند دوا یا طریقۂ علاج موجود نہیں تھا، جس سے اس وبا کے پھیلائو کو روکا جاسکے۔

اِسی لیے لاک ڈائون جیسے انتہائی سخت طریقے آزمائے گئے، جنہوں نے ایک طرف سیاست اور معیشت سمیت زندگی کے تمام شعبے ٹھپ کردئیے، تو دوسری طرف، عوام کو اس ذہنی اور نفسیاتی خلجان میں مبتلا کردیا کہ آخر اس سے نجات کیسے پائی جائے گی؟اس خوف کا بھی اظہار کیا گیا کہ کہیں دنیا سو، دوسو سال پیچھے نہ چلی جائے ۔نیز،ترقّی اور خوش حالی کی جو لہر صدی کے شروع میں سامنے آئی، کہیں ملیا میٹ نہ ہو جائے۔پھر یہ کہ دنیا اس خوف میں بھی مبتلا رہی کہ نہ جانے اس کی دوسری، تیسری اور باقی لہریں کیا کیا تباہیاں ساتھ لائیں۔ 

اس نوعیت کے سوالات بھی اُٹھنے لگے کہ کاروبار کی موجودہ ہیئت میں فرد کی موجودگی ضروری ہے، تو کیا وہ گھر بیٹھ کر ریلیف پیکج ہی لیتا رہے گا اور اس سے انسانی توانائیوں پر کتنا منفی اثر پڑے گا؟ اسی لیے دنیا بھر کی حکومتیں غیر یقینی کیفیت میں رہیں۔وہ اس کے منفی اثرات کم سے کم کرنے کے لیے مالیاتی، انتظامی اور طبّی سطح پر اقدامات تو کرتی رہیں، تاہم اُن کے سامنے کوئی مستقل لائحۂ عمل نہیں تھا، جب تک اس وبا سے بچائو کا کوئی یقینی طریقۂ کار سامنے نہیں آ گیا۔ طبّی سائنس کو ایک اور معرکہ سَر کرنا ہے کہ کورونا کے بچائو کی ویکسین تو آرہی ہیں، لیکن اس کے علاج کی کوئی مستند دوا ابھی تک تیار نہیں ہوسکی۔ مختلف ادویہ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے اور اُن میں سے کئی ایک کام یاب بھی ثابت ہوئیں، کیوں کہ کورونا سے متعلق یہ بات بھی سامنے آئی کہ 95 فی صد سے زاید افراد پر اس کے اثرات انتہائی کم ہوتے ہیں۔ اسی لیے پیچیدہ امراض میں مبتلا افراد کے علاوہ اکثر مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں۔اس کے سیریس مریضوں اور اموات کی شرح مجموعی طور پر دو فی صد رہی ہے۔

اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ویکسین کی تیاری سے سُرنگ کے آخری سرے میں روشنی آگئی ہے؟ماہرین اس کا جواب’’ ہاں‘‘ میں دے رہے ہیں۔ اسی لیے اگر 2021 ء کی ترقّی کی شرح اور مالیاتی اعشاریے دیکھے جائیں، تو وہ زیادہ تر مثبت ہیں۔صرف وہی مُلک سُست رفتار ترقّی کریں گے، جنہوں نے اس وبا سے لڑنے کی مؤثر اور جامع حکمت عملی تیار نہیں کی اور پھر اس سے بچاؤ کی تدابیر پر عمل درآمد نہ کروا سکے۔ دوسرے الفاظ میں جن ممالک کی گورنینس خراب رہی، اُنھیں مستقبل میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔عام طور پرانسانی سوچ ممالک اور موسموں کے باوجود ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔تنہائی اور تنہائی بھی وہ، جو زبردستی اور سختی سے لاگو کی گئی ہو، اُس سےوہ تنگ آجاتا ہے۔اسی لیے لاک ڈائون اور سماجی دوری،جو کورونا وائرس کے خلاف سب سے مؤثر اقدامات سمجھے گئے، عوام کے لیے بہت ہی بوریت، بلکہ ٹینشن کا باعث رہے۔

انہیں کسی بھی مُلک میں خوش دلی سے قبول نہیں کیا گیا، جس پر کچھ نرمیاں کرکے صُورتِ حال معمول پر لانے کی کوشش کی گئی، لیکن ظاہر ہے، اس سب کے باوجود عوام پر اس وبا کے معاشی اثرات کے ساتھ نفسیاتی اثرات بھی مرتّب ہوئے۔ ایسے لاک ڈائون پورے پورے برّاعظموں میں صرف اِس لیے ممکن ہو پائے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز نے ایک قسم کا آؤٹ لیٹ پیدا کیا، جس سے لوگ اپنے گھروں سے نکلے بغیر باہر دیکھنے میں کام یاب رہے۔سماجی دوری ضرور رہی، لیکن سماجی رابطے نہیں ٹوٹے، بلکہ کچھ سوشل میڈیا ماہرین کا تو کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے رابطے مزید مضبوط ہوئے۔ لوگوں نے اپنے بھولے بسرے دوستوں، رشتے داروں کو تلاش کیا اور اُن میں سے کئی ایک کو پا بھی لیا۔ ایک اندیشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا تھا کہ لاک ڈائون اور حکومتی اقدامات سے شاید جمہوری ممالک میں آزادی پر قدغن لگ جائے اور اس کے اثرات تادیر رہیں۔

لوگ مجبوراً زندگی، صحت اور خاص طور پر معاشی مجبوریوں کی وجہ سے حکومت کی باتیں ماننے پر مجبور رہیں گے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔بہت سے ممالک میں تو انتخابات تک ہوئے۔امریکا کی مثال سب کے سامنے ہے، جہاں سب سے زیادہ کورونا کیسز سامنے آئے، سب سے زیادہ اموت ہوئیں، لیکن الیکشن بھی ہوئے اور قیادت بھی بدلی۔ یہ جمہوریت کی ایک بڑی فتح ہے۔ماہرین کے مطابق، جہاں کورونا نے زندگیوں پر مثبت اور منفی اثرات ڈالے، وہیں بنیادی اقدار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔یہ ضرور ہے کہ دنیا کو کچھ عرصے تک سیاسی اور معاشی چیلنجز درپیش رہیں گے۔ تاہم، کورونا ویکسین سے حکومتوں اور عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور وہ واپس ترقّی کی شاہ راہ پر بہتر حکمتِ عملی سے لَوٹنا شروع کردیں گے۔

مراکش نے، جو افریقا کے شمال میں واقع ہے، اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرلیا ہے، یوں یہ چوتھا عرب مُلک ہے، جس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں، لیکن اِس سے زیادہ حیرت انگیز خبر یہ ہے کہ مراکش میں یہودیوں کی تاریخ اور ثقافت قومی تعلیمی نصاب میں شامل کر لی گئی ہے۔ابتدا میں اسے پرائمری اور آئندہ سال سیکنڈری تک پڑھایا جائے گا۔مراکش کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔ یہ وہی مُلک ہے، جس سے تعلق رکھنے والے طارق بن زیاد نے اسپین فتح کیا تھا اور یورپ میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔اس ضمن میں مراکش کی طرف سے کہا گیا کہ یہ مضامین اِس لیے شامل کیے گئے تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ مُلک کتنا کثیر الثقافتی ہے اور دوسرے مذاہب کے معاملے میں کتنا کُھلے دل کا ہے۔

ویسے مراکش میں یہودیوں کی تعداد اور اُن کی عبادت گاہیں کسی بھی دوسرے عرب یا افریقی مُلک سے زیادہ ہیں۔ مراکش کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی وہی پالیسی کارفرما ہے، جس کے تحت امریکا، عرب ممالک کو اسرائیل کے قریب لا رہا ہے۔ اس اقدام کے بعد امریکا نے صحارا پر مراکش کی خود مختاری تسلیم کر لی۔اُدھر تُرکی نے بھی اپنا نیا سفیر اسرائیل میں مقرّر کردیا ہے۔ دو سال پہلے جب صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیتُ المقدِس(یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، تو اُس وقت صدر اردوان نے احتجاجاً اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا، لیکن دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم رہے۔

حالیہ دنوں میں یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کیا، تو صدر اردوان کی طرف سے اُن کے خلاف سخت، تلخ اور مذمّتی بیانات آئے۔سفارتی ماہرین کے مطابق، تُرکی نے یہ فیصلہ امریکا میں نئی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی کے تحت کیا۔ ٹرمپ حکومت میں تُرکی کے امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہت تلخی دیکھی گئی اور کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوا کہ وہ نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود شاید یوٹرن لے کر روس کے کیمپ میں شامل ہونے کو ہے۔

جی۔20 ممالک کے ریاض اجلاس کے دَوران یہ خبر بھی آئی تھی کہ سعودی عرب اور تُرکی میں اعلیٰ ترین سطح پر رابطے ہوئے ہیں اور شاہ سلمان اور صدر اردوان نے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔یہ دونوں پیش رفت مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلی کے نئے اشارے کر رہی ہیں۔

تازہ ترین