کوروناوائرس کی وبادیگرعلاقوں کی طرح آزادکشمیرمیں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔حکومت آزادکشمیر نے قبل ازیں آزاد کشمیر بھرمیں 21نومبرسے 7دسمبرتک پندرہ دنوں کیلئے مکمل لاک ڈائون لگادیاتھا۔ آٹھ دسمبرکے بعد کچھ شرائط کے تحت سمارٹ لاک ڈائون لگایاگیا۔جس کے ذریعے ہفتے میں پانچ دن کاروبارچلتاہے اوردوروزیعنی منگل اورجمعہ کومکمل لاک ڈائون ہوتا ہے۔ اس دوران بیکریز گوشت سبزی فروٹ کی دکانات اورمیڈیکل سٹورزکھلے رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اگرچہ حکومت آزادکشمیرنے ہوٹلوں کوایس اوپیزپرعلم کرتے ہوئے ہوٹل اس شرط پرکھولنے کی اجازت دی ہوئی ہے کہ ہال میںکوئی سروس گاہکوں کوفراہم نہیں کی جائے گی البتہ پارسل کے ذریعے کھانافراہم کیاجاسکتاہے ۔مگراس حکم پرکوئی عملدرآمد نہیں کیاجارہاہے ۔ہوٹل چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔
دن بھر ہوٹلوں کے ہال لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں جو وہاں کھانا نوش کرتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں اورحالات حاضرپر گپ شپ لگاتے ہیں ہوٹلوں پرنہ ہی ماسک لگانے کی پابندی ہے اورنہ ہی سوشل ڈیسٹنس قائم کیاجاتاہے حکومت آزادکشمیر اپنے اس حکم پرعملدرآمد کروانے پر بے بس ہوگئی ہے اسی طرح مساجد میں بھی جانے والے نمازیوں کوامام صاحبان سختی سے ہدایت کرتے ہیں کہ وہ کندھے سے کندھا ملا کرصف مکمل کریں صفوں میں کوئی وقفہ نہ رکھیں اور ماسک بھی نہ پہنیں ورنہ ان کی نماز نہیں ہوگی اس طرح کوروناوائرس کی وبا کو پھیلانے میں ہوٹل والے اور مساجدکے امام صاحبان اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
مگرکوئی بازپرس کرنے والانہیں ہے ۔لاک ڈائون کے دوران متاثرہونے والے غریب اورعام آدمی کوجودن کومزدوری کرکے شام چولہاجلانے کے لئے لے جاتاتھااس کوحکومت کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں دیاگیاہے ۔جس باعث براہ راست عام آدمی خاصامتاثر ہورہا ہے ۔حکومت آزادکشمیر کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔حکومت آزادکشمیر نے سرکاری ہسپتالوں کے او پی ڈیز بند کر رکھے ہیں۔
پرائیویٹ کلینکس بھی بند رکھے جانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ جس سے عام خاصی مشکلات کاسامناکرنا پڑرہا ہے ۔اعلاج معالجہ کے لئے کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا ادھر آزادکشمیرمیں قائم ڈاکٹروں کی تنظیم میں مطالبہ کیا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کروناوائرس کی وباپھیلنے کے خطرے کے پیش نظر اوپی ڈیز مزید کچھ عرصہ کے لئے بندکررکھی جائیں البتہ ان ڈاکٹرزنے یہ مطالبہ کیاہے کہ پرائیویٹ کھولنے کی اجازت دی جائے عوام حلقوں نے ڈاکٹرزکے اس مطالبے پرحیرت کا اظہار کیا ہے کہ ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں کام نہیں کرناچاہتے کیونکہ وہاں کروناوائرس پھیلنے کے زیادہ خطرات ہیں اوروہی ڈاکٹرزجوپرائیویٹ کلینکس میں بھی دوبجے سے رات گئے تک کام کرتے ہیں وہ پرائیویٹ کلینکس کھولنے کامطالبہ کرتے ہیں۔ عوامی حلقوں نے استفسارکیاہے کہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہی کروناوائرس کاخطرہ ہے اورپرائیویٹ کلینکس میں کروناوائرس پھیلنے کاکوئی خطرہ نہیں تاکہ ڈاکٹرز اپنے فرائض انجام دینا چاہتے ہیں ۔
آزادکشمیرسپریم کورٹ کے سینئرجج غلام مصطفی مغل 27دسمبرکواپنی مدت پوری کرنے کے بعدریٹائرڈہورہے ہیں۔انہوں نے بیس جنوری 2002ء کو بحیثیت جج عدالت العالیہ اپنے عہدے کاحلف اٹھایاتھا۔31دسمبر2009تک وہ عدالت العالیہ کے جج رہے یکم جنوری 2010ء کوانہیں عدالت العالیہ کاچیف جسٹس تعینات کیاگیاتھا۔جہاں چاراپریل 2017ء تک وہ اس عہدہ پرفائزرہے اس دوران اپریل2010ء میںآزادکشمیرمیں جوعدالتی بحران پیداہواتھااس میں انہوں نے اکیلے عدالت عالیہ اورشریعت کورٹ میں مقدمات کی سماعت کی چاراپریل 2017ء کوآزدجموں کشمیرسپریم کورٹ کامستقل جج تعینات کیا گیاتھاجہاں سے وہ اپنی65سالہ عمرپوری کرنے کے بعدریٹائرہورہے ہیں۔
اس دوران انہوں نے انتہائی اہم نوعیت کے مقدمات کے فیصلے کئے انہوں نے بحیثیت چیف الیکشن کمیشن جولائی 2016ء کے عام انتخابات کروائے اس کے بعدبعض حلقوں میں خالی ہونے والی نشستوں پرضمنی انتخابات کروائے بطورچیف الیکشن کمشنرانہوں نے اپنے فرائض احسن طورپر سر انجام دیئے ۔آزداکشمیر میں عدالت عالیہ میں اس دوران بعض ججزکی تعیناتیوں کوچیلنج کیاگیاتھاان مقدمات میں غلام مصطفی مغل نے تاریخ فیصلے دیئے ۔آزاد کشمیر عدالت العالیہ کے دوججزراجہ یونس طاہراوررفیع اللہ سلطانی کے مقدمات کے فیصلے بھی انہوں نے کئے تھے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ چوہدری ریاض اخترکی تعیناتی کے حوالے سے دائررٹ پٹیشن کافیصلہ غلام مصطفی مغل کے دورمیں ہواتھا۔
بعدازاں جب وہ سپریم کورٹ میں گئے تووہاں پرعدالت عالیہ کے چیف جسٹس ایم تبسم آفتاب علوی کی اپیل کوسپریم کورٹ کے جس فل بنچ میں خارج کیاتھااس میں غلام مصطفی مغل بھی تھے ۔17جولائی 2020ء کوآزادجموں کشمیرسپریم کورٹ کے جن دوججزنے 23مئی 2018ء کوعدالت عالیہ میں تعینات ہونے والے پانچ ججزکی تعیناتی کے حوالے سے جواپیل منظورکی گئی تھی ان پانچ ججزکو گھرجانا پڑا تھا اس میں بھی غلام مصطفی مغل نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔
اس فیصلہ کے خلاف جونظرثانی آزادجموں کشمیر سپریم کورٹ میں جاری کی گئی تھی اس کافیصلہ پندرہ دسمبر کو کیا گیا جس میں اس نظرثانی کوناقابل سماعت قراردے کرخارج کردیا گیا ہے۔اپنی تعیناتی کے دوران جسٹس غلام مصطفی مغل عدلیہ میں ایک نام کمایا ان کے تاریخی فیصلے رہتی دنیا تک یادرکھے جائیں گے ۔