• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بندۂ خاکی‘‘ پر بھانت بھانت کے تبصرے ہوتے رہتے ہیں، کبھی کوئی طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ بندہ ایماندار ہے، کبھی کوئی ’’بندۂ تابعدار‘‘ کا طرح مصرع اُچھالتا ہے تو بےباک شعرا جھوم کر پوری غزل کہہ ڈالتے ہیں۔ اسی مشاعرے میں کسی نے یہ بھی کہا کہ بندہ اناڑی نہیں بلکہ بہت بڑا کھلاڑی ہے اور سب سے کھیل رہا ہے۔ یہ تو اِس کھیل کا حسن ہے کہ کسی اناڑی کو بھی میدان میں اُتار دیا جائے تو وہ دوچار بائونسر کھانے کے بعد نہ صرف کھلاڑی بن جاتا ہے بلکہ اِس کھیل کے اسرار و رموز جاننے کے بعد سلیکٹرز کو آنکھیں دکھانے لگتا ہے لیکن میں اِس ’’بندۂ خاکی‘‘ کا بہت بڑا مداح ہوں۔ آپ جو جی چاہے کہیں مگر مجھے تو یہ بندہ بہت کھرا، سچا اور من موجی محسوس ہوتا ہے۔ ممکن ہے یہ اُس کی سیاسی حکمت عملی ہو مگر وہ سوچے سمجھے بغیر جو منہ میں آتا ہے بلاجھجھک کہہ دیتا ہے۔ اُسے یہ پریشانی بھی لاحق نہیں ہوتی کہ اِس بات کو دراصل اُس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آخری بار مجھے ایوان صدر کے ایک معصوم مکین کی سادگی اور بھولپن پر پیار آیا تھا جس نے کہا تھا کہ پانامہ لیکس قدرت کی طرف سے اُٹھا ہے اور اب بڑے بڑے لوگ اس کی پکڑ میں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ﷲ کا ایک نظام ہے، کوئی واقعہ دو ماہ بعد ہوگا، کوئی چھ ماہ بعد اور کوئی سال بعد مگر یہ ﷲ کا ایک نظام ہے، سب پکڑ میں آئیں گے۔ یہ بندہ جس پر ’’تابعدار‘‘ کی پھبتی کسی جاتی ہے، اُس نے سادگی اور سادہ لوحی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر اُس بندے نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر آواز اُٹھائی اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ’’آدمی جو کہتا ہے، جو سنتا ہے، زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں‘‘۔ اُس کی سچی اور کھری باتوں کی بازگشت تو اب بھی سنائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ فرمان عالیشان کسے یاد نہیں کہ مہنگائی اور بےروزگاری ہو تو اُس کا مطلب ہے حکمران کرپٹ ہیں۔ یہ جملے بھلا کیسے فراموش کئے جا سکتے ہیں کہ یہ حکمران ڈھیٹ ہیں، لیکن الحمدللہ مجھ میں اتنی غیرت ہے کہ اگر میرے خلاف چند سو افراد نکل آئے اور اُنہوں نے نعرہ لگا دیا کہ ’’گو بندہ گو‘‘ تو میں استعفیٰ دیکر چلا جائوں گا۔ اور پھر خودکشی والی بات، اُسے تو نقل کرتے ہوئے بھی حیا آتی ہے۔ آپ اِس بندے کی سادگی ملاحظہ فرمائیں کہ اِس نے آف شور کمپنیوں کے خلاف تحریک چلائی اور ببانگِ دہل کہا کہ آف شور کمپنیاں لوٹ مار اور چوری کا پیسہ چھپانے کے لئے بنائی جاتی ہیں مگر پھر کیا ہوا کہ اُس کی اپنی آف شور کمپنی نکل آئی۔ اُس نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو غیرقانونی تعمیرات کے خلاف درخواست دی مگر جب سماعت شروع ہوئی اور رپورٹ سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ اُس کا اپنا گھر غیرقانونی تعمیرات میں شامل ہے۔ اُس بندے نے نہایت بےاعتنائی سے ایک شخص کو دھتکارتے ہوئے کہ اُسے تو میں چپراسی بھی نہ رکھوں اور پھر اُسے سب سے بڑے عہدے سے نواز دیا۔ اسی طرح ایک شخص جسے اس سادہ لوح شخص نے ’’سب سے بڑا ڈاکو‘‘ قراردیا تھا، اسے بھی بہت بڑے منصب سے نوازنا پڑا۔ اسے آپ حالات کا جبر کہیں، حسن اتفاق یا پھر قدرت کا کرشمہ سمجھیں لیکن یہ بندہ جو بھی بات کرتا ہے اس کے آگے آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب یہ ’’بندۂ خاکی‘‘ سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انہیں اپنے ملک سے محبت نہیں، ان کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں تو لوگ ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں اور جب سانس بحال ہوتی ہے تو یہ بڑبڑاتے ہوئے پھر سے ہنسنے لگتے ہیں کہ اس کے بچے گورنمنٹ پرائمری اسکول چیچوکی ملیاں میں پڑھ رہے ہیں کیا؟ اسی طرح جب اس سادہ لوح شخص نے منشیات کی لعنت سے متعلق تقریر کرتے ہوئے یہ کہا کہ گھر کا کوئی ایک فرد بھی نشے میں مبتلا ہو تو پورے گھر کو تباہ کردیتا ہے تو لوگوں نے اس سنجیدہ نوعیت کی بات کو بھی تفریح کا ذریعہ بنالیا۔ اب چند روز قبل اس سادہ مزاج بندے نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اس بات کا عتراف کیا کہ ایک سال تک تو انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ کیا ہورہا ہے اور پھر انتہائی خلوص سے ان جذبات کا اظہار کیا کہ تیاری اور تجربے کے بغیر کسی کو حکومت میں نہیں آنا چاہئے تو چاند ماری کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس بندے کے سادگی پر مبنی بیانات جمع کرنا شروع کریں تو ایک کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔

سیاسی مخالفین اسے ’’تابعدار خان‘‘ کہتے ہیں مگر سچ پوچھیں تو مجھے یہ بندہ اپنی سادگی اور صاف گوئی کے سبب اچھا لگنے لگا ہے۔ ممکن ہے ہمارے ناخدا بھی اس بندے کے بھولپن سے متاثر ہوئے ہوں اور کچھ بعید نہیں کہ اس ’’بندۂ خاکی‘‘کی اسی سادگی کے پیش نظر حکومت اس کے حوالے کی گئی ہو۔ اور بعد میں معلوم ہوا ہوکہ سادگی اور بھولپن کا شمار اس ’’بندہ خاکی‘‘ کی کمزوریوں نہیں بلکہ طاقت میں ہوتا ہے۔ 17ویں صدی میں اسپین کے مشہور نثر نگار، دانشور اور فلاسفر Baltasar Gracianنے کہا تھا، بسا اوقات سب سے بڑی حکومت و دانائی خود کو احمق اور بے وقوف ظاہر کرنا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس بندے نے ہسپانوی دانشور کا قول پڑھا یا سنا ہو لیکن وہ اس بات پر من و عن عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔ پہلے پہل لوگ اس سادہ مزاج شخص کو واقعی ’’جھلا‘‘ سمجھتے تھے لیکن اب ان کی رائے تبدیل ہوتی جارہی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ بندہ ’’جھلا‘‘ نہیں بلکہ توقعات سے کہیں زیادہ ’’کھوچل‘‘ ہے۔ وہ موقع کی مناسبت سے خود کو جان بوجھ کر ’’جھلا ‘‘ظاہر کرتا ہے تاکہ اسے خطرہ نہ سمجھ لیا جائے۔ خدا جانے سچ کیا ہے؟ بعض اوقات شخصیت کے سحر میں کھو جانے کے باعث خامیوں کوبھی خوبیوں کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس لئے آنے والا وقت ہی یہ طے کرے گا کہ بندہ اناڑی ہے یا کھلاڑی؟ ’’جھلا‘‘ ہے یا ’’کھوچل‘‘؟

تازہ ترین