• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11 مئی 2013 ء کو انتخابات کا مرحلہ نیم حسن خوبی کے ساتھ انجام پایا ، بہ حسن خوبی اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک کہ الیکشن کمیشن کراچی اور لاہور میں مبینہ دھاندلی کی شکایات پر غور کرتے ہو ئے کوئی حتمی فیصلہ سنا نہیں دیتا ۔ بہرحال قابل مسرت اور اطمینان بخش امر یہ ہے کہ غیر متوقع طور پر پوری قوم نے ان انتخابات میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیا ، تمام تر خدشات اور دہشت گردی کے امکانات کے باوجود گھروں سے باہر نکلنے کا خطرہ مول لیا اور پولنگ سٹیشنز کے باہر شدید گرمی میں گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہ کر اپنی قومی زمہ داری کو نبھایا ۔یوم انتخاب قوموں کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے قومی زندگی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور اس فیصلہ کن گھڑی میں ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارا ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے حالات میں اتنا بڑا ٹرن آوٴٹ یقینی طور پر ایک خوش آئند بات ہے لیکن انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد کچھ ایسے تلخ حقائق اور خدشات بھی ہیں جنکی دھمک احساس اور فکر پر ضربیں لگاتی محسوس ہو رہی ہے۔ان نتائج میں قومی یک جہتی کی تصویر دھند لی ہے جبکہ لسانی ، علاقائی اور ثقافتی برادری میں بٹی ہوئی قوم کا عکس گہرا ہے اور یہ تاثر کسی ایک علاقے یا سیاسی جماعت تک محدود نہیں بلکہ کراچی، سندھ ،پنجاب اور پختونخوا اور بلوچستان تک یہ تسبیح ٹوٹ کر بکھرتی نظر آرہی ہے ۔ بعض قائدین کے بیانات بھی ہمارے اس اندیشے کو تشویش میں بدل چکے ہیں ۔قومی یکجہتی کی بجائے لسانی اور صوبائی تعصب کو ہوا دینے والے بیان کسی بھی طرح قوم کے لیئے سودمند ثابت نہیں ہوسکتے۔ آج پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کے ہم من حیث القوم ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں اور قومی یکجہتی کے ساتھ ملکی اور بین القوامی مشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ کریں۔
انتخابی نتائج پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی یوتھ بھی اسی انتشار کا شکار ہے۔دیکھا جائے تو پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں کے ووٹ بھی الگ الگ جماعتوں کو اسی محدود سوچ کی بنیاد پر ڈالے گئے اور پاکستان کی وہ یوتھ جسے عمران خان ایک نئے پاکستان کی تعمیر اور نئی تبدیلی کے لیے تیار کر رہے تھے وہ دیہات میں اپنی پرانی سوچ کے ساتھ بندھی ہوئی مسلم لیگ ن کی حامی رہی اور پنجاب میں عمران خان وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی ۔
ہم عجیب طرح کی قوم ہیں کہ مشکل اور کچھ مخصوص حالات میں ہماری قومی جذباتیت انتہا پر اور ہماری قومی یکجہتی عروج پر ہوتی ہے خواہ وہ ملک میں آنے والی قدرتی آفت ہوں یا قومی کرکٹ لیکن قومی یکجہتی کے یہ جذبات مستقل طور پر نظر نہیں آتے۔
ہماری قومی سوچ کا محور وطن عزیز کی سلامتی اور جمہوری روایت کا استحکام ہونا چاہئے لیکن ہم تو مذہبی ،لسانی اور صوبائی تفریق میں تقسیم شدہ قوم ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ قومی انتشار ہماری قومی سلامتی کے لئے دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ہو سکتا ہے بلکہ اکثر تو دہشت گردی کا پودا تفرقہ کے بیج سے ہی پھوٹتا ہے بعض اوقات تفرقہ کے بیج سے پھوٹنے والے اسی پودے کو پانی اور کھاد ڈالنے والے یا تو متعصب مذہبی رہنما ہوتے ہیں جو قوم کو شیعہ، سنی،دیوبندی ،اہل حدیث اور بریلوی وغیرہ میں بانٹ دیتے ہیں یا پھر مفاد پرست حکمران اور سیاستدان جو مذہبی ،صوبائی اور نسلی تعصب کی پرورش کرتے ہیں۔
اخترالایمان نے ٹوٹی بکھری قوم کی بے بسی کا احوال اپنی ایک نظم کے اشعار میں یوں بیان کیا ہے ۔
خدا ئے حاضر و غائب کی ہیں یہ وہ بھیڑیں
جنہیں چراتے ہیں صدیوں سے رہبران وطن
نماز ایک کی ہے ، کفر دوسرے کے لئے
کسی کی وجہ سکوں ہے کسی کے دل کی چبھن
جمہوریت قومی یکجہتی کو مظبوط خطوط پر استوار کرنے کا نام ہے ۔ آج کے ملکی مسائل کی پیش نظر ہمیں ایسے نظام اور ایسے مضبوط جمہوری اداروں کی ضرورت ہے جو قومی یکجہتی کی راہوں کو ملکی سالمیت اور قومی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہموار کریں ۔
ہمارے لیے پاکستان کے ترانہ کا مطلب بھی ذہن نشیں اور جاں گزیں کرنا ضروری ہے ۔کشور حسیں کی تعریف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم یک جان اور یک آواز ہو کے ارضِ پاکستان کو اپنے ایمان و یقیں کا مرکز نہیں بناتے ۔ اگر ہمیں آج اپنی قوم کو پاکستان کی تعمیرنو کے لیے تیار کرنا ہے تو صوبائیت ،علاقائیت ،نسل اور زبان کے تعصب اور مذہبی تعصبات سے ماورا ہو کر اس فکروعمل کو اختیار کرنا ہوگا جو ہمیں قومی یکجہتی کے راستے پر لے جاسکے ۔
اس وقت بلوچستان میں جو حالات نظر آرہے ہیں کیا وہ خدانخواستہ کسی حادثے کی دھمک نہیں ۔ کیا ہم سقوط مشرقی پاکستان کے المیہ کو بھول گئے۔ اس کے اسباب و محرکات سے آنکھیں بند کر کے آج بھی ہم نے اس دردناک ماضی سے سبق حاصل نہیں کیا تو پھر شاید تاریخ بھی ہمیں معاف نہ کرے ۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ خیبر پختو نخوا کو ایک مثالی صوبہ بنادیں گے اور ساتھ ہی پاکستان کو یہ بھی دکھائیں گے کہ ایک فعال اور مضبوط حکومت کیا ہوتی ہے ۔اس وقت اگر مرکز اور صوبوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت سازی ہونے جا رہی ہے توسیاسی جوڑ توڑ کی بجائے ایک مثبت جمہوری روایت کی بنیاد ڈالتے ہوئے خیبر پختونخوا میں عمران خان کو حکومت بنانے کا موقع دینا چاہیے تانکہ دونوں جماعتوں کی کارکردگی کا تقابل بھی عوام کی نظر کے سامنے رہے ۔ اسی طرح مرکز میں ایک مظبوط اپوزیشن کی موجودگی حکومت کے لئے بہتر کارکردگی اور چیک اور بیلنس کی راہ ہموار رکھے گی۔ جس نئے پاکستان کا خواب ہم سب نے دیکھا ہے وہ شرمدہ تعبیر ہوسکے گا۔
بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی خواہش بھی یہ ہے کہ وہ اور ان کے بچے جب پاکستان جائیں تو وہاں ایک نئے پاکستان کا منظر ہو۔جہاں امن و امان کی فضا ہو ، جان مال اور عزت محفوظ ہو ،پانی،اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں موجود ہوں۔صحت ،نے روزگاری اور تعلیم کے مسائل نظر نہ آئیں۔ یہ سارے خواب، امیدیں اور آرزوئیں اب نئی حکومت کے وعدوں اور قسموں سے مربوط ہوچکی ہیں۔ لیکن اہل وطن کو بھی یہ یاد رکھنا ہے وطن کی سلامتی قومی یکجہتی میں مضمر ہے ،بے زمینی اور بے وطنی سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔
زندگی کی دھوپ میں اس سر پہ اک چادر تو ہے
لاکھ دیواریں شکستہ ہیں پر اپنا گھر تو ہے
جو بھی آئے گا یہاں دستک تو دے کر آئے گا
اک در دیوار تو ہے ، اک حصار در تو ہے
تازہ ترین