• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں ہم نے لاہور کے غنڈوں اور بدمعاشوں کا ذکر کیا تھا۔ بہت سے بدمعاشوں نے کئی کئی شادیاں کی ہوئی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ جس کا تعلق شعبہ سوشل ورک سے تھا، وہ بائو وارث کا انٹرویو کرنے آئی اور اس سے شادی کر لی۔ اب پتہ نہیں کون کہاں ہو گا؟ وہ ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئی۔ ماجھا سکھ برطانیہ سے پڑھ کر آیا تھا اور وہ دشمن دار تھا۔ ایک خاندان کےقتل کی وجہ سے وہ دشمن دار بن گیا تھا۔ شاہیا اور ریاض گوجر بھی اپنے وقت کے غنڈے اور بدمعاش رہے۔ اب تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ ان بدمعاشوں، غنڈوں اور دشمن داروں میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ خواتین، بزرگوں اور بچوں کا احترام کرتے تھے اور دشمنی میں بھی ان کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ بائو وارث کی اردو اور انگریزی ہینڈ رائٹنگ بڑی خوبصورت تھی۔ اس نے منشی فاضل کیا ہوا تھا۔ پرانے لاہوریوں کو اللہ لمبی زندگی عطا فرمائے (آمین)، انہیں یاد ہو گا کہ مال روڈ ، وکٹوریہ پارک، نکلسن روڈ، ہال روڈ اور کوئنز روڈ پر بے شمار اینگلو انڈین لڑکیاں اور خواتین نظر آتی تھیںجو فراک پہنے ہوتے تھیں۔ ہم نے تو میو اسپتال کی اس آخری اینگلو انڈین نرس کو بھی دیکھا ہے جو فراک پہنے اور نرسوں کی مخصوص ٹائی لگائے گورا وارڈ (البرٹ وکٹر اسپتال، میو اسپتال کا ایک حصہ) میں پھرا کرتی تھی اور اکثر وہاں لوگوں کو ڈانٹ رہی ہوتی تھی۔

کنیئرڈ کالج لاہور میں کئی اینگلو انڈین لڑکیاں پڑھتی تھیں بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1965ء تک گورنمنٹ کالج لاہور اور کنیئرڈ کالج میں لڑکیاں سائیکل پر آیا کرتی تھیں۔ لیڈیز سائیکل کی Shapeعام سائیکلوں سے مختلف ہوتی تھی۔ اس دور میں بے شمار سائیکلوں پر لائٹ یعنی ڈینمو ضرور ہوتا تھا جو سائیکل کے چلانے سے چلتا تھا اور لائٹ پیدا ہوتی تھی۔ ہر سائیکل کے پیچھے لال بتی بھی ضرور لگی ہوتی تھی۔ سائیکل پر بتی نہ ہونے پر اور ڈبل سواری پر چالان ہو جاتا تھا۔ بھاٹی گیٹ سے ون وے آنے پر بھی چالان ہوتا تھا۔ مڈل کلاس اور دفتری لوگ سائیکل پر آگے باسکٹ اور پیچھے کیریئر ضرور رکھتے تھے جبکہ فوج اور پولیس کی سائیکلوںکی سائیڈ پر ڈاک کے لئے لوہے /ٹین کا ڈبہ لگا ہوتا تھا۔ پولیس کی سائیکلوں کا رنگ مسٹرڈ ہوتا تھا۔ اب تو پولیس اور فوج میں سائیکلوں کا استعمال بالکل ختم ہو گیا ہے۔ ہم جب بچپن میں لاہور کینٹ جاتے تھے تو کیپٹن رینک تک کے آفیسرز سائیکلوں پر آ جا رہے ہوتے تھے۔ لاہور کینٹ بہت خوبصورت علاقہ تھا۔ اتنا خوبصورت کوئی کینٹ نہیں تھااب یہ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ پولیس اور فوج کی سائیکلوں پر ان کے لئے مخصوص نمبر لگے ہوتے تھے۔ شہر لاہور میں بے شمار لڑکیاں سائیکل چلایا کرتی تھیں، مجال ہے کہ کوئی ان سے بدتمیزی کرے۔ حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہم تہذیب یافتہ قوم سے ایک بدتہذیب اور بد تمیز قوم بنتے جا رہے ہیں۔ پہلے گرلز کالجوں میں پڑھنے کے لئے لڑکیاں خود سائیکل چلاکر جایا کرتی تھیں۔ اب چند لڑکیاں اسکوٹری ضرور چلاتی ہیں۔ لاہور میں 1965ء میں صرف چار پانچ خواتین ہی کار چلاتی تھیں۔ کون یقین کرے گا کہ نہری باری دوآب یعنی اچھرہ نہر کے ساتھ مسلم ٹائون میں زمین صرف 600روپیہ کنال تھی۔ مسلم ٹائون میں ایک ارم سینیما ہوا کرتا تھا۔ کیا خوبصورت سینیما تھا، یہ لاہور کا واحد سینیما تھا جورہائشی علاقے میں واقع تھا۔ لاہور میں بیدیاں روڈ پر بھی ایک قدیم سینیما تھا جس کے نام پر تھیٹر گائوں بن گیا تھا۔

لاہور کا پہلا ٹاکی سینیما بنا تو اس کو پاکستان ٹاکیز بھی کہا جاتا تھا۔ اس کا پرانا نام کچھ اور تھا۔ لاہور کے قدیم سینیما میں پلازہ، نشاط، رتن، ریگل، اوڈین، کیپٹل، صنوبر اور ریجنٹ وغیرہ تھے۔ ان میں سے اب صرف دو تین رہ گئے ہیں۔ نشاط سینیما اور رتن سینیما کب کے ختم ہو چکے ہیں۔ لاہور کبھی سینیمائوں کا گھر تھام، اب تو چند ایک سینیما رہ گئے ہیں۔ کبھی سینیما گھروں کے باہر ہر شو کے ختم ہونے کے بعد تانگے ضرور ہوا کرتے تھے۔ اب تو کسی سینیما گھر کے باہر کوئی تانگہ نہیں ہوتا۔ پلازہ سینیما کی کینٹین بھی کیا کینٹین تھی، صاف ستھری اور مزیدار پیسٹریاں ہوتی تھیں۔ لاہور میں بھاٹی گیٹ، ہیرا منڈی، اسٹیشن، راوی روڈ، موچی دروازہ، شاہ عالمی اور رنگ محل وغیرہ میں تانگوں کے اڈے ہوا کرتے تھے اور گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے حوض ہوا کرتے تھے۔ اب لاہور میں شاید ہی گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے کوئی حوض ہو۔

لاہور کے کچھ ایسے ہوٹل تھے جو سیاسی بحث و مباحثے کے لئے بڑے مشہور تھے۔ مثلاً چائنیز لنچ ہوم، جہاں کبھی ذوالفقارعلی بھٹو، شورش کاشمیری، خواجہ رفیق شہید (خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق کے والد)، ڈاکٹر مبشر حسن، رفیق احمد شیخ (سابق ا سپیکر پنجاب اسمبلی ) اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما آیا کرتے تھے۔ کیری ہوم دوپہر کے کھانے کے لئے مشہور تھا۔ وہاں پر بھی کئی معروف لوگ آیا کرتے تھے۔ پاک ٹی ہائوس صرف ادیبوں اور شاعروں کے لئے مخصوص تھا۔ لارڈز ہوٹل میں کئی سیاسی شخصیات آتی تھیں۔ لاہور میں پہلا چائنیز ریسٹورنٹ چینیوں نے 1967ء کے بعد قائم کیا تھا۔ اس ریسٹورنٹ کا نام CATHAY تھا اور اس کو چینی شہری چلاتے تھے ،ان کی رہائش بھی ساتھ ہی تھی۔ ان کی ایک بیٹی فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) میں پڑھتی تھی۔ اب تو مدت ہوئی، یہ لوگ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ چینی ریسٹورنٹ بھی کب کا بند ہو چکا ہے۔ CATHAYسے کم از کم آدھے لاہور نے ضرور چینی کھانا کھایا ہو گا اور کئی سیاسی شخصیات بھی یہاں آتی تھیں۔ سارے ریسٹورنٹ میں چینی مالک اور ملازمین پھرتے رہتے تھے۔ اس کے بعد لاہور میں کئی چینی ریسٹورنٹس قائم ہوئے۔ سب سے زیادہ STCVEکا چینی ریسٹورنٹ تائوا بہت چلا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین