کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ “میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر بلدیات و اطلاعات ،ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ تعمیراتی پیکیج کا سب سے بڑا فائدہ کراچی کو ہی ہوگا۔سیکریٹری جنرل ،ن لیگ احسن اقبال نے کہا کہ پی ڈی ایم کی کسی جماعت میں کنفیوژن نہیں ہے کہ اس حکومت کو گھر جانا ہوگا عمران خان کو استعفیٰ دینا ہوگا۔
مسلم لیگ ن کے تقریباً95 فیصد اراکین کے استعفے آچکے ہیں اور باقی بھی اگلے دو تین روز میں آجائیں گے۔
اسی طرح دیگر جماعتوں نے بھی استعفے اکٹھے کرلئے ہیں۔ہم نے دسمبر اور جنوری میں عوامی ریلیاں مختلف مقامات سے نکال کر بھی بتانا ہے کہ ہماری تحریک صرف بڑے شہروں تک نہیں تھی بلکہ ملک کے طول و عرض میں بھی اس کی اسی طرح حمایت ہے۔
آپ نے دیکھا کہ مردان میں ایک بڑی کامیاب ریلی ہوئی۔کئی لوگوں کی رائے تھی کہ جنوری میں موسم شدید ہوگا اگر ہم لانگ مارچ کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں تو شیڈول میں تھوڑا ردو بدل کرنا ہوگا۔اسی لئے پھر پی ڈی ایم کی لیڈر شپ نے کہا کہ 31جنوری تک ہم وزیراعظم کو موقع دیتے ہیں کہ وہ ملک کو خلفشار سے بچا لیں۔
ہمارا ایکشن پلان بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم وزیر اعظم سے لے کرحکومت کے ہر وزیر کے اعصاب پر سوار ہے۔پی ڈی ایم کی تحریک نے وزیراعظم کو سچ بولنے پر مجبور کردیا ہے ۔
وزیراعظم جو بیانات دے رہے ہیں ایسے بیانات شدید دباؤ میں ہی دیئے جاتے ہیں۔پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر ہم اتحاد میں ہیں توانفرادی پالیسیوں کواجتماعی فیصلوں کے ساتھ منسلک کریں ۔
جب سب کو اعتماد میں لے لیں تو پھر کوئی اعلان کریں یکطرفہ اعلانات سے کنفیوژن پھیلتی ہے اس سے ہمیں اجتناب برتنا چاہئے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ پی ڈی ایم میں اختلاف تو موجود ہے۔لاہور میں تمام جماعتیں اعلامیہ پر دستخط کرچکی ہیں جس میں استعفوں اور اسلام آباد کی طرف مارچ کی بھی باتیں شامل ہیں لیکن پیپلز پارٹی نے استعفوں کے معاملے سے جو دباؤ بنا ہوا تھا اس کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
پیپلز پارٹی نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا بھی اعلان کیا ہے اور ساتھ ساتھ استعفوں کے معاملے پر بھی اگر مگر شروع کردی ہے ۔اس سے حکومت اور پی ڈی ایم کے مخالفین کو طعنہ دینے کا موقع ملا۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کی یہ سوچ بن رہی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی استعفے نہیں دیتی تو ہمارے استعفے حکومت کے لئے فائدے کا باعث بنیں گے تو لگتا ہے وہ بھی اس سے پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔اس رویئے پر فضل الرحمٰن ،محمود خان اچکزئی،اے این پی قیادت، شاہ اویس نورانی دکھی ہیں۔
لگتا ہے پیپلز پارٹی انتخابی مہم چلانا چاہتی ہے انہوں نے تھرپارکر میں بھی جلسہ رکھ دیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ بات چیت چل رہی ہے اس سے پہلے بھی میاں نواز شریف سے ایک پیغام رساں ملے تھے ۔اسی کی وجہ سے انہوں نے لاہور جلسے میں وہ کچھ نہیں کیا جو گوجرانوالہ میں کیا تھا۔ ابھی بھی جو کچھ ہوگا یہ عمران خان نہیں کررہے ہیں ۔
محمد علی درانی کی شہباز شریف سے جو ملاقات ہوئی ہے وہ مقتدر حلقوں کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔اس دن عمران خان اور بزدارنے پورا زور لگایا تھا کہ محمد علی درانی کی یہ ملاقات نہ ہونے پائے۔
شاہد خاقان عباسی کا ای سی ایل سے نام نکالنا عمران خان کا اقدام نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ بھی کہیں اور ہوا ہے۔اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ٹریک ٹو بات چیت ہورہی ہے۔وزیر بلدیات و اطلاعات ،ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم آباد کے ساتھ میٹنگ کررہے ہیں ہم نے یہ کہا بھی ہے کہ فوری طور پر یہ منظوری ہونا چاہئے۔
کراچی میں کچھ مسائل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بات میں مسئلہ آتا ہے۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے بہت ساری منظوریاں رکی ہوئی ہیں۔پوری کوشش ہے کہ ان کی جتنی بھی منظوریاں ہیں وہ ان سب کو دے دیئے جائیں ۔تاکہ یہ لوگ وزیراعظم کے پیکیج سے مستفید ہوسکیں۔جن کے کاغذات مکمل ہوں گے اور ساری چیزیں ٹھیک ہوں گی ہم ان کو منظوری دیں گے۔
تعمیراتی پیکیج کا سب سے بڑا فائدہ کراچی کو ہی ہوگا۔ دیگر جگہوں پر سپریم کورٹ کے آرڈرز نہیں ہیں مگر یہاں پر آرڈرز ہیں۔
میزبان شہزاد اقبال نے اپنے تجزیئے کہا کہ اپوزیشن نے حکومت کو جنوری تک گھر بھیجنے کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے مگر ان دعوؤں پر عملدرآمد ہوتا ہوانظر نہیں آرہا۔
پی ڈی ایم کی دوسری بڑی جماعت اب سینیٹ انتخابات کے لئے الیکٹورل کالج کوتوڑنا نہیں چاہتی بلکہ اب تو پیپلز پارٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی8 خالی نشستوں پر انتخابات لڑنے کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔
پیپلز پارٹی یہ بھی واضح کرچکی ہے کہ وہ کسی صورت بھی دھرنے کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ وہ ماضی میں دھرنوں کی مخالفت کرچکے ہیں۔