• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان امن مذاکرات میں کلیدی کردار، بھارت کیخلاف اہم دستاویز پیش

بلاشبہ افواجِ پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے کہ مشکل ترین حالات کے باوجود مسلّح افواج نے ہمیشہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں ،بہادری اور جواں مردی سے نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سےوطنِ عزیز کئی اندرونی و بیرونی خطرات سے دو چار ہے ۔مُلک دشمن قوّتیں سرحدوں پر جنگی صورتِ حال پید ا کر کے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنےاور توڑنے کی سازشیں کر رہی ہیں، مگر الحمدُ للہ ! افوجِ پاکستان کے جوان اور افسران نہ صرف سرحدوں بلکہ مُلک کے اندر بھی ہر محاذ پر چوکنّا ہیں۔ہمارا دیرینہ دشمن بھارت،سالِ گزشتہ بھی اپنی ناپاک کارروائیوں سے باز نہیں آیا،اگست 2020 ء میں بھارتی خفیہ ادارے ، را کی ایک نئی سازش اور منصوبے کا انکشا ف ہواکہ بھارت نے تحریکِ طالبان پاکستان ، جمعیت الاحرار ، بلوچستان لیبریشن آرگنائزیشن ، بی آر اے ، ایل ایف اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا ایک مشترکہ اتحاد قائم کیا ہے اور انہیں کروڑوں ڈالرز کے فنڈز بھی فراہم کیےہیں۔ 

خفیہ رپورٹ سے پتا چلا کہ مذکورہ انتہا پسند تنظیموں کو بلوچستان ، کے پی کے ، سندھ ، پنجاب اور گلگت بلتستان کے بڑے شہروں جیسےراول پنڈی ، اسلام آباد ، پشاور، کراچی ، لاہورمیں سیکیوریٹی فورسز ، پولیس اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے ، شیعہ، سنّی فسادات کروانے کی ذمّے داری سونپی گئی تھی،مگر الحمدُللہ! قانون نافذ کرنے والے ادارے، خفیہ ایجینسیوں کے گم نام سپاہی ، اس مُلک کے محافظ ہر لمحہ الرٹ رہے ۔ آئی ایس آئی نے را کےمذموم عزائم سے متعلق  بروقت معلومات حاصل کرکے مؤثر و کام یاب آپریشن کیے اور دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرکے ان کے اہم کمانڈرز کو جہنم واصل کردیا۔ علاوہ ازیں، کراچی ، ڈیرہ اسماعیل خان ، گلستان ، کوئٹہ ، جنوبی وزیر ستان اور دیگر شہروں میں آپریشن کرکے متعد ّد اہم دہشت گرد کمانڈرز گرفتار کیے گئے۔ 

واضح رہے کہ گزشتہ سال ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں نے ایک بڑی کارروائی کی کوشش کی تھی، جسے پاک فوج کی بر وقت کارروائی نے ناکام بنا یا۔جب کہ آپریشن میں پاک فوج کے ایک دلیرسپوت، مجیب الرحمٰن نے جامِ شہاد ت نوش کیا ۔ 8 اپریل 2020 ءکو قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں نے کارروائی کرنا چاہی ،مگر سیکیوریٹی فورسز نے سات دہشت گردوں کو مار گرایا۔ ان کے خفیہ ٹھکانوں سے جو سامان ملا، اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ کس’’پڑوسی مُلک‘‘ کی سرپرستی میں کام کر رہے تھے ۔ 

پاک فوج نےکئی آپریشنز میں بی ایل اے کے بھی ٹھکانے تباہ کیے ۔تب ہی تو بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی کام یابیوں کو تسلیم کیا گیا۔ واشنگٹن میں قائم تِھنک ٹینک، وِلسن سینٹر ایشیا پروگرام کےڈپٹی ڈائریکٹر، مائیکل کوگل مین کے مطابق ’’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے، جو خوش آئند ہے۔ ‘‘

پاکستانی تِھنک ٹینکس کے مطابق 2009ء میں دہشت گردی کے 2000واقعات پیش آئے،جوپاکستانی فوج کی کام یاب حکمتِ عملی اور موثر کارروائیوں کے سبب 2019ءمیںکم ہو کر صرف 250 رہ گئے۔ پاک فوج نے کورونا وبا پر قابو پانے کے ضمن میںبھی قوم کا بھر پور ساتھ دیا ۔نیز،جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں خطّے میں قیامِ امن اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں بھی شان دار کردار ادا کیا۔

امریکا نےبھارت کے ساتھ گہرے روابط کے با وجود پاکستانی حکومت، بالخصوص فوج سے درخواست کی کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے،(در اصل امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2021ء کو اپنی مدّت ِ ملازمت ختم ہونے سے قبل امریکی اور نیٹو فورسز کو افغانستان سے نکالنے کے خواہش مند ہیں) چناں چہ آرمی چیف اورآئی آیس آئی کی کوششوں سے طالبان گروپس کو امریکا کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا گیااور اس میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا گیا اور یہ مذاکرات بتدریج کام یابی سے ہم کنار ہو رہے ہیں ۔جس پر سیخ پا ہو کر بھارت نے خود کُش حملوں کا بھی سہارا لیا، مگر ناکام رہا۔نیز، آئی ایس آئی نے حال ہی میں مودی حکومت اور بھارتی خفیہ ادارے ،را کے افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبوں کاانکشاف کر کے بھی ایک تہلکہ مچا دیا۔ شواہد کی بنیاد پر پاکستان نے ایک ڈوزیر (دستاویز )تیار کر کے اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت مختلف ممالک کو دیا،جس سے بھارت کا چہرہ بےنقاب ہو ا اوراقوامِ عالم میں اس کی جتنی بدنامی ہوئی ، تاریخ میںاُس کی مثال نہیں ملتی۔

اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے علاقائی اور سیاسی تبدیلیاں رُو نما ہو رہی ہیں،جن کے نتیجے میں پاکستان کے لیے بھی خطرات بڑھ رہے ہیں، بالخصوص سی پیک کی وجہ سے دشمنوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہیں کہ کسی طرح اس منصوبے کو ناکام بناکر وطنِ عزیز میں انتشار پھیلایا جائے، مگر مسلّح افوا ج تمام اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر لحظہ تیار اور الرٹ ہیں۔ اس حوالے سے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں ایک انتہا ئی اہم اجلاس ہوا، جس میں وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، جنرل ندیم رضا، آرمی چیف ،جنرل قمر جاوید باجوہ ،پاک فضائیہ کے سربراہ ،ائرچیف مارشل مجاہد انور خان ، پاک بحریہ کے سربراہ ،ایڈمرل محمّد امجد نیازی ، چیف آف جنرل اسٹاف، لیفٹننٹ جنرل شمشاد سا حر ، وزیر ِخارجہ ،شاہ محمود قریشی ،وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر اعلیٰ حکّام نے شرکت کی۔

واضح رہے کہ پاکستان کو درپیش خطرات پر چین بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہےاور پاکستان کا بھر پور ساتھ دے رہا ہے۔ دسمبر 2020ء میں چین کے وزیرِ دفاع، جنرل فینگ کی قیادت میں اعلیٰ سطح کا فوجی وفد پاکستان آیا ، جس نے جنرل ہیڈ کوارٹر،راول پنڈی میں پاک فوج کے اعلیٰ حکّام سے خطّے کی دفاعی و سیاسی صورتِ حال پر مذاکرات کیے اور دونوں ملکوں نے تیزی سے بدلتے حالات کے تناظر میں مؤثر اور مضبوط فوجی تعاون پر اتفاق کیا۔ جی ایچ کیو میں ہونے والے مذاکرات کے موقعے پر ایک معاہدے پہ بھی دستخط ہوئے، جس کے تحت کسی بھی قسم کے حالات میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے،یعنی خدا نخواستہ پاکستان پر کسی طرف سے حملہ ہوا تو چین پاکستان کا بھرپور ساتھ دے گا اور اگر چین کو ہماری ضرورت پڑی تو پاکستان اپنے دوست کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ 

عسکری ماہرین اس معاہدے کو دونوں مُلکوں کے درمیان دفاعی معاہدہ قرار دے رہے ہیں۔اس وقت دنیا میں مختلف بلاکس بننے جارہے ہیں ،جن میں پاکستان چین ، روس ، ایران، ترکی اورنیپال کا ایک بلاک بن رہا ہے، جس میں افغانستان کو بھی شامل کیے جانے کا امکان ہے، تواسی طرح امریکا ، بھارت ، بعض عرب ممالک اور اسرائیل کا بھی ایک بلاک بن رہا ہے، جس سے دنیا میں ایک بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔ دوسری جانب ،بھارت ،پاکستان کی امن کوششوں کو کم زوری سمجھ کرپورا سال کنڑول لائن پرشہری آبادیوں کو نشانہ بنا تارہا۔ تا دمِ تحریر2,333مرتبہ ایل او سی کی خلاف ورزی کرکے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 

جواباً پاک فوج نےشہری آبادی کو تو نہیں، فوجی مورچوں کو نشانہ بنا یااور انہیں چُن چُن کرتباہ کیا۔ علاوہ ازیں،سالِ گزشتہ بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے24 ممالک کے سفیروں اور دفاعی اتاشیوں کو کنٹرول لائن کا دَورہ کروایاگیا۔ ان ممالک میں امریکا، برطانیہ، جرمنی ، فرانس ، آسٹریلیا ، پولینڈ ، یورپین یونین ، سوئٹزر لینڈ ، سعودی عرب، جنوبی افریقا، آذر بائیجان، عراق ،یمن، افغانستان ، مصر ،لیبیا، بوسنیا، ازبکستان ،ترکی اور ایران وغیرہ کے سفارت کار شامل تھے۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل بابر افتخار نے سفارت کار وں کوبتایا کہ’’ بھارت، مقبوضہ کشمیر میں تقریباً ڈیڑھ سال سے جاری کرفیو اور نہتّے مسلمانوں پر ڈھائے جانےوالےمظالم سے توجّہ ہٹانے کے لیے کنڑول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کر رہا ہے۔تب ہی توانسانی حقو ق کی تنظیموں اور سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیںدی جاتی ۔‘‘

نیز، غیر ملکی قوّتوں کے اشارے پر پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پہ مذموم پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بِل بھی منظور کیا گیا ،جسے کرمنل لا (ترمیمی بِل 2020ء) کا نام دیا گیا۔اس کے تحت مجرموں کو2 سال تک قید ،پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی۔نومبر 2020ء میں دفترِ خارجہ میں وزیرِ خارجہ ،شاہ محمود قریشی اور ترجمان پاک فوج، میجر جنرل بابر افتخار نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں پاکستان میں حالیہ دہشت گردی اور انتہا پسند تنظیموں کی تمام تر کارروائیوں کے پیچھے بھارت کے ملوّث ہونے کے شواہد پیش کیے۔ اس موقعے پرڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’’افغانستان میںموجود بھارتی کرنل ، راجیش دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہے، جب کہ بھارت نے حال ہی میں داعش کے 30 دہشت گردوں کو پاکستان منتقل کیا ہے۔

را اپنے فرنٹ مین کو تیسرے مُلک کے ذریعے فنڈنگ کرتا ہے، جب کہ بھارت سےدہشت گردی کے لیے افغانستان رقوم بھیجی گئیںاور الطاف حُسین گروپ کی بھی فنڈنگ کی گئی۔ ہمارے پاس 3.23ملین ڈالرز کی منتقلی کے ثبوت ہیں۔جب کہ بھارت نےسی پیک کے خلاف بھی 700افرادپر مشتمل ملیشیا ترتیب دی ہے۔‘‘ ترجمان پاک فوج کا مزید کہنا تھا کہ ’’ ڈاکٹر اللہ نذر کی بھارتی خفیہ ایجینسی ،را کے ساتھ روابط مصدّقہ ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر نے جعلی افغان پاسپورٹ پر بھارت کا سفر بھی کیا۔ 

بی ایل اے اور بی ایل ایف گوادر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملوں میں ملوّث ہے، جب کہ پشاور ایگری کلچر یو نی وَرسٹی اور اے پی ایس میں بھی بھارتی خفیہ ایجینسی کے ملوّث ہونے کے ثبوت موجودہیں۔ان حملوں کی ویڈیوز افغانستان سے اَپ لوڈ کی گئیں۔علاوہ ازیں، آزادجمّوں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ہی ملوّث ہےاور اس نے پاکستان میں اہم شخصیات کے قتل کی منصوبہ بندی بھی کی۔‘‘

پاک فضائیہ

پاک فضائیہ ، ایئر چیف مارشل، مجاہد انور خان کی قیادت میں دن دُگنی، رات چوگنی ترقّی کر رہی ہے۔تعداد میں بھارتی فضائیہ سے کم ہونے کے با وجودمجاہدینِ افلاک نے وہ کارنامے سر انجام دیئے ، جو تاریخ میں سنہری الفاظ میں یاد رکھے جائیں گے۔27فروری 2019ء کو پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں پوری دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہونے کے بعد بھارت، فرانس کے جنگی طیّارے،رافیل خریدنے کی کوششوں میں تھا،تو 2020 ءمیں اس نے پانچ طیارے خریدہی لیے، جس کے بعد بھارتی حکومت اور عوام پُھولے نہیں سمارہے ، مگر ان طیاروں کے حصول کے باوجود پاکستان سے طیارے گرائے جانے کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ 

پاک فضائیہ کا سب سے بڑا کارنامہ، چِین کےتعاون سے جے ایف تھنڈر17 کی تیار ی ہے، جو پاک فضائیہ کے ماہرین اور انجینئرز وطنِ عزیز ہی میں تیار کر رہے ہیںاور ہر سال ان کے ساتھ مختلف بین الاقوامی ایئر شوز میں بھی شریک ہوتے ہیں،جن سے ان کی مانگ میں خُوب اضافہ ہوگیا ہے۔اس وقت کم از کم 12 مُلکوں کے ساتھ طیاروں کی فروخت کے معاہدے کیے جارہے ہیں ، جن سے پاکستان کو کثیر زرِ مبادلہ حاصل ہوگا۔

یاد رہے،سال کے آغازمیں شکر پڑیاں کے مقام پرایک انتہائی افسوس ناک واقعہ یومِ پاکستان پریڈ کی تیاریوں کے دوران پیش آیا کہ جب پاک فضائیہ کا ایک ایف 16 طیارہ گر کر تباہ ہوگیا اور اس حادثے میں پائلٹ ،وِنگ کمانڈر نعمان اکرم شہید ہوگئے۔

پاک بحریہ

گزشتہ برس ،پاک بحریہ کے نئے سربراہ ،ایڈمرل محمّد امجد خان نیازی نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ۔یہ کمانڈ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے اُن کے حوالے کی۔واضح رہے، ایڈمرل محمّد امجد خان نیازی اپنے کیرئیر کے دوران مختلف عُہدوں پرخدمات انجام دے چُکے ہیں۔ انہوں نے 1985ء میں پاک بحریہ کی آپریشنز برانچ میں کمیشن حاصل کیا اور کمیشننگ کے موقعے پر پاکستان نیول اکیڈمی سے اعزازی شمشیر وصول کی۔ 

وہ متعدّد کمانڈ اور اسٹاف عُہدوں پر کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اور کمانڈر پاکستان نیوی وار کالج ، لاہور، کمانڈر پاکستان فلیٹ اور کمانڈر کراچی کے فرائض سر انجام دے چُکے ہیں۔انہوں نے اپنی ذمّے داریاں سنبھالتے ہی کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کامقابلہ کرنے کے لیے تیاریاں تیز تر کر دیں۔ واضح رہے کہ چین و بھارت اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے پاکستانی سمندری حدود کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے خلاف اپنی بحریہ استعمال کر سکتا ہے۔ 

سالِ رفتہ چِین نےپاک بحریہ کو نئے جنگی جہاز اور آب دوزیں فراہم کیں، جب کہ مختلف ممالک سے مزید سازو سامان بھی حاصل کیا جارہا ہے ۔پاک بحریہ کے سربراہ نے حال ہی میں ترکی کا دَورہ کیا ، جہاںدونوں ممالک کے درمیان بحری افواج کے تعاون کو فروغ دینے کی بات کی گئی۔ علاوہ ازیںانہوںنے کوسٹل ایریا میں پاک بحریہ کی تنصیبات کا بھی دَورہ کیا اور تربت، گوادراوراورماڑہ میں آپریشنل تیاریوں کا معائنہ کیا۔

اس موقعے پر انہیں نیوی ائیر آرم آپریشنز، گوادرپورٹ اور سی پیک کوسٹل سیکیوریٹی پر بریفنگ بھی دی گئی۔انہوں نے افسروں اور جوانوں کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’سی پیک سے وابستہ ترقّی میں میری ٹائم سیکیوریٹی کا کلیدی کردار ہے۔‘‘ واضح رہے کہ پاک بحریہ کے سربراہ کمان سنبھالتے ہی اس عزم کا اظہارکر چُکے ہیں کہ ’’ہم ہر قسم کی جا رحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہیں اور اگر دشمن نے ہماری سمندری حدود میں گُھسنے کی کوشش کی تو اس کا انجام ماضی سے زیادہ بھیانک ہوگا۔ دسمبر 2020ء میں وزیرِ اعظم عمران خان نے نیول ہیڈ کوارٹرز ،اسلام آباد کا دَورہ کیا، جہاں سربراہ پاک بحریہ نے اُن کا استقبال کیا۔اس موقعے پروزیر اعظم کو علاقائی میری ٹائم سیکیوریٹی کی صورتِ حال ، چیلنجز اور میری ٹائم سیکٹر کی ترقّی کے لیے پاک بحریہ کے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔

وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ’’حکومت ،پاک بحریہ کو ہر طرح کا تعاون فراہم کرتی رہے گی۔ 2020ء کو اس ضمن میں ’’بلیو اکانومی‘‘ کا سال قرار دیا جانا بحری معیشت کی ترقّی کے لیے حکومتی اقدامات کا مظہر ہے، جب کہ ہم معاشی ترقّی میں میری ٹائم سیکٹر کے فروغ کے لیے بھی کوشاں ہیں۔‘‘

تازہ ترین