سال 2020ء میں کورونا اور لاک ڈائون کے باوجود عدالتیں فعال رہیں۔اعلیٰ عدالتوں میں’’ اِی کورٹ‘‘ کی سہولت متعارف کروائی گئی، جس کے تحت وکلاء کو ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل کی سہولت میّسر آئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کورونا کے باعث گھر پر قرنطینہ ہونے کی وجہ سے کلبھوشن کیس میں وڈیو لنک ہی کے ذریعے لارجر بینچ کا حصّہ بنے اور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار گھر سے کسی مقدمے کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ کے جج، جسٹس وقار احمد سیٹھ اور نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا سُنانے والے احتساب عدالت کے جج، ارشد ملک کورونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے۔چیف جسٹس آف پاکستان، مسٹر جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ناکافی سہولتوں پر پہلا سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکّام سے جواب طلب کیا۔اُنھوں نے ریمارکس دیے کہ’’ وزیرِ اعظم کی دیانت داری پر شک نہیں،تاہم اِس ضمن میں حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ کابینہ پر مشیروں اور معاونین کا قبضہ ہے۔‘‘
عدالتِ عظمیٰ نے کورونا کے باعث معمولی جرائم میں سزا یافتہ اور انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ’’ ہیلتھ ایمرجینسی رہائی کا جواز نہیں۔حالات کچھ بھی ہوں، قانون کا قتل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ عدالت نے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی، ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش کی، تو سوشل میڈیا پر چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی کردار کُشی پر مبنی مہم چلائی گئی، جس پر وزیرِ اعظم نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے سے رپورٹ طلب کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس، شوکت عزیز صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف آئینی درخواست کو سماعت کے لیے مقرّر کرنے کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا، جس پر سماعت تو ہوئی، مگر اس سے منسلک دیگر درخواستیں رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے باعث فِکس نہیں کی جا سکیں، اِس لیے سماعت جنوری 2021ء تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے مختلف مواقع پر موبائل فون سروس بند نہ کرنے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ پی ٹی اے انسدادِ دہشت گردی کے لیے موبائل فون سروس بند کر سکتی ہے۔‘‘ چیف جسٹس نے بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو اختیارات نہ دینے کے خلاف درخواست میں حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ’’ بلدیاتی اختیارات صوبے یا وفاق کو دینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی چوائس نہیں،ایک لازمی قانونی تقاضا ہے۔‘‘عدالت نے حکومت کی طرف سے 2011ء میں لگائے گئے گیس انفرا اسٹرکچر سیس قانونی قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو بقایاجات کی ریکوری 24کے بجائے 60برابر اقساط میں کرنے کا حکم دیا۔
اُدھر مختلف کیسز کی سماعت کے دَوران بلین ٹری پراجیکٹ کی بھی گونج سُنائی دیتی رہی۔ پشاور میں فضائی آلودگی پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے’’ کہاں گئے وہ بلین ٹری سونامی کے منصوبے؟ ہمیں تو پشاور جاتے ہوئے ایک درخت بھی نظر نہیں آیا۔‘‘ نیز، ایک کیس کی سماعت کے دَوران بلین ٹری سونامی منصوبے کے اخراجات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ’’ 430ملین درخت لگ چُکے ہوتے، تو پاکستان کی تقدیر بدل جاتی۔ بلین ٹری منصوبے کی تحقیقات کروائیں گے، کیا سارے درخت بنی گالہ میں لگا دیے؟‘‘سندھ میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے ازخود نوٹس کی سماعت میں اُن کا کہنا تھا ’’وفاق بتائے، کراچی کو لوڈشیڈنگ سے نجات کیسے ملے گی؟‘‘ عدالت نے کے پی کے، کےمختلف اداروں کے ملازمین کی مستقلی کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا۔
سنگین غدّاری کیس میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی خصوصی عدالت سے سزائے موت کے خلاف اپیل اعتراض لگاکر واپس کرتے ہوئے کہا گیا کہ’’ جب تک سزا یافتہ خود کو قانون کے سامنے پیش نہ کرے، اپیل دائر نہیں ہو سکتی۔‘‘ عدالتِ عظمیٰ نے حکومت کو 120نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی ہدایت کے ساتھ سماعت میں تیزی لانے کا بھی حکم دیا۔ اس موقعے پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے’’ قانون کے مطابق نیب کیسز کا فیصلہ30 دن میں ہونا چاہیے۔ موجودہ رفتار سے زیرِ التوا 1226ریفرنسز نمٹانے میں ایک صدی لگ جائے گی۔‘‘ پی آئی اے کی مجوّزہ نج کاری سے متعلق از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس، گلزار احمد نے ریمارکس دیے’’
ایک ایک جہاز کے لیے 700 ملازم کام کرتے ہیں۔ جعلی اسناد والے جہاز اُڑا رہے ہیں،اُنھیں ایک ایک کر کے نکال دیں گے۔‘‘ عدالت نے پی آئی اے کے چیف ایگزیکیٹو افسر، ایئر مارشل ارشد محمود کی عُہدے پر بحالی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا عبوری حکم برقرار رکھا۔ پاکستان ریلوےسے متعلق از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ’’ پاکستان ریلویز سے زیادہ بدعنوان ادارہ پورے مُلک میں نہیں، ذمّے داران اس میں بہتری لانے کے بجائے سیاست کر رہے ہیں۔ وزیر ریلوے روز حکومت گراتا اور بناتا ہے، لیکن اپنی وزارت سنبھال نہیں پا رہا۔‘‘
سپریم کورٹ نے ایک موقعے پر وزیرِ اعظم، عمران خان کو بھی نوٹس جاری کیا، کیوں کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ایک مقدمے میں پیش ہونے کی بجائے کنونشن سینٹر کی اُس تقریب میں چلے گئے، جہاں وزیرِ اعظم مدعو تھے۔ اس موقعے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے’’ وزیرِ اعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کر رہے ہیں؟وہ پورے مُلک کے وزیرِ اعظم ہیں یا کسی ایک سیاسی جماعت کے؟‘‘ عدالت نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور اس کے راستے میں آنے والی تمام عمارتیں گرانے کا کام بروقت مکمل نہ ہونے پر وزیرِ اعلیٰ سندھ کو توہینِ عدالت، جب کہ سیکرٹری ریلوے کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔
نیز، کراچی میں خطرناک بل بورڈز ہٹانے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ سمیت دیگر افسران کو ہٹا کر قابل اور دیانت دار افسر تعیّنات کرنے کا بھی حکم دیا۔عدالت نے صاف پانی کیس میں سندھ واٹر کمیشن اور اس کے سیکرٹریٹ کو تحلیل کرتے ہوئے تمام ریکارڈ چیف سیکرٹری سندھ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے بی آر ٹی منصوبے میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے حکومتی اپیل کی سماعت کے دَوران ایف آئی اے کو تحقیقات سے روکتے ہوئے منصوبے کی مجموعی لاگت اور تکمیل کی تفصیلات طلب کیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے سانحہ اے پی ایس کی انکوائری کمیشن رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا۔ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف ایک ٹوئٹ پر توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی گئی اور اغوا کا نوٹس لے کر آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ بھی طلب کی گئی۔فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کی پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت رہائی روک دی گئی۔ڈیم فنڈ میں بیرونِ مُلک سے آنے والی رقوم کی تفصیلات طلب کیں۔ ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے’’ دوا ساز ادارے بھی مافیا ہیں، خریداری کے نام پر منافع باہر بھیج دیتے ہیں۔‘‘ ایک اغوا کیس میں مرد تھانے دار کی جانب سے مغویہ کا بیان لینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی پنجاب کو ہدایات جاری کیں کہ زنا کے مقدمات میں خاتون پولیس افسران ہی خواتین سے تفتیش کریں۔
کے پی میں گریڈ گیارہ اور اس سے اوپر کی تمام تر تقرّریاں خیبر پختون خوا پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ امریکی بلاگر، سنتھیا ڈی رچی کی جانب سے سابق وزیرِ داخلہ، رحمان ملک پر ریپ کے الزامات لگائے گئے اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ’’ الزام غلط بھی ہو، تو ایف آئی آر کیسی روکی جا سکتی ہے؟‘‘ جعلی بینک اکائونٹس ریفرنسز میں سابق صدر آصف علی زرداری کے شریک ملزم انور مجید کی طبّی بنیادوں پر ضمانت منظور کرتے ہوئے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اضافی نوٹ تحریر کیا کہ’’ بیش تر پاکستانیوں کو رہائش کی سہولت میّسر نہیں،ایسے میں مُلک کی زمین اشرافیہ میں تقسیم کرنا قرآن کے اصول کی نفی ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید لکھا کہ’’ کوئی بھی قانون اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ چیف جسٹس اور جج صاحبان زمین لینے کے حق دار ہیں۔ حکومت کا جج صاحبان کو پلاٹ دینا، اُنھیں نوازنے کے مترادف ہے۔ عوام کی نظروں میں ججز کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے خودمختار عدلیہ انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح برّی، بحری اور فضائی افواج یا اُن کے ماتحت کوئی بھی فورس زرعی یا کمرشل اراضی لینے کا حق نہیں رکھتی۔‘‘
سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کے افسران کی بھرتی کے اختیار کا نوٹس لیتے ہوئے نیب کے تمام ڈی جیز کی تقرّریوں سے متعلق تفصیلات طلب کیں۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ’’ چیئرمین نیب، آئین و قانون کو بائی پاس کر کے کیسے بھرتیاں کر سکتے ہیں؟ نیب افسران کی نااہلی، پیشہ ورانہ مہارت اور تجربے کی کمی کے باعث معصوم لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ‘‘تاہم، نیب کی جانب سے قواعد و ضوابط کا مسوّدہ جمع کرواتے ہوئے سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ چیئرمین نیب کو کسی بھی مرحلے پر ملزم کی گرفتاری کا اختیار حاصل ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی ضمانت منظور کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری ہوا، جسے نیب کی ورکنگ کے حوالے سے ایک’’ لینڈ مارک ججمنٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا’’ جب تک ٹرائل کے بعد سزا نہ سُنا دی جائے، ملزم بے گناہ تصوّر ہوتا ہے۔ٹرائل سے پہلے یا ٹرائل کے دَوران سزا اذیّت کا باعث ہے۔
نیب قانون مُلک میں بہتری کی بجائے مخالفین کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔یہ وفاداری تبدیل کروانے، سیاسی مخالفین کو سبق سِکھانے، سیاسی جماعتوں کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔‘‘ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ’’ نیب سیاسی لائن کے دوسری طرف کھڑے ایسے افراد کے خلاف،جن پر مالی کرپشن کے الزامات ہیں، کوئی قدم نہیں اٹھاتا، جب کہ دوسری طرف کے افراد کو گرفتار کرکے مہینوں اور سالوں بغیر وجہ اذیّت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
قانون کہتا ہے کہ تفتیش جلد مکمل کی جائے اور 30 دن میں ریفرنس کا فیصلہ ہو، مگر نیب برسوں تفتیش مکمل نہیں کر پاتا، سالوں گزرنے کے باوجود فیصلے نہیں ہوتے، جس کی وجہ پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ نیب مقدمات میں سزا کی شرح انتہائی حد تک کم ہے، اس سے قومی مقاصد پورے نہیں ہو رہے، بلکہ اس سے مُلک و قوم اور معاشرے کو ہمہ جہت نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے ایڈیٹر انچیف روزنامہ’’جنگ‘‘، جیو میر شکیل الرحمان کی34 سال پرانے پراپرٹی کیس میں ضمانت منظور کی۔ میر شکیل الرحمان کے وکیل، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ’’ ایل ڈی اے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف شکایت کنندہ نہیں اور نہ ہی اس نے کوئی کارروائی کی۔
متعلقہ جگہ پر ایل ڈی اے سے نقشہ منظور کروا کے مکان بنایا، ایل ڈی اے نے واجبات نہیں مانگے۔الزام لگایا کہ 4کنال12مرلے اضافی زمین کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں دی، حالاں کہ اضافی زمین کی قیمت 1987 ء میں ادا کردی گئی تھی۔ 34 سال بعد نوٹس جاری کرکے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا۔‘‘شادی کو 75 سال گزرنے کے باوجود حق مہر نہ ملنے پر 90 سالہ معمّر خاتون، سعیدہ سلطان سپریم کورٹ پہنچ گئیں۔اُن کے وکیل نے بتایا کہ’’ اُن کی موکلہ کا حق مہر 3 کنال 10 مرلے زمین تھی۔ زمین نام ہونے کے باوجود قبضہ نہیں مل سکا۔ شوہر کا انتقال ہو چُکا ہے، فیصلے حق میں ہونے کے باوجود اجرا کے معاملے میں جعلی رپورٹس پیش کی گئیں۔‘‘
بھارتی جاسوس، کلبھوشن سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے اسے وکیل فراہم کرنے کی درخواست دائر کی گئی۔ عدالت نے بھارت کو خود وکیل مہیّا کرنے کا موقع دیا اور پاکستان کی جانب سے بار بار قونصلر رسائی کی پیش کش کی گئی۔ سابق وزیرِ اعظم، نواز شریف کو توشہ خانہ ریفرنس میں احتساب عدالت، جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ریفرنسز میں سزائوں کے خلاف اپیلوں میں عدم حاضری پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اشتہاری قرار دیتے ہوئے جائیداد ضبطگی کی کارروائی شروع کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری پر جعلی بینک اکائونٹس کے ریفرنسز میں فردِ جرم عاید کی گئی۔
سابق وزیرِ اعظم، یوسف رضا گیلانی پر توشہ خانہ ریفرنس، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی پر ایل این جی ریفرنس، جب کہ سابق وفاقی وزیر احسن اقبال پر نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کی تعمیر میں اختیارات کے غلط استعمال پر نیب ریفرنس میں فرد جرم عاید کر کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار تین ملزمان معظّم علی، محسن علی اور خالد شمیم کو عُمر قید کی سزا سُنائی، جب کہ بانی متحدہ کو اشتہاری قرار دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان اور ایس ای سی پی کے جوائٹ ڈائریکٹر، ساجد گوندل کے اغوا پر اُن کی بازیابی کے احکامات جاری کیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مرغزار چڑیا گھر کے جانوروں کی منتقلی کا فیصلہ سُنایا، جس کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں کاون ہاتھی کمبوڈیا منتقل کیا گیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے حمایت یافتہ امیدوار، عبداللطیف آفریدی نے کام یابی حاصل کی۔چیف جسٹس آف پاکستان سمیت ججز نے مختلف تقاریب سے خطاب بھی کیا۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کوئٹہ میں پاکستان بار کاؤنسل کی جانب سے اپنے اعزاز میں عشائیے سے خطاب میں کہا کہ’’ سپریم کورٹ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے۔ مسنگ پرسنز کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے، اس معاملے پر کمیشن کام کر رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ بازیاب بھی ہو چُکے ہیں۔‘‘جسٹس فیصل عرب کی ریٹائرمنٹ پر عشائیے سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا’’ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے۔‘‘ پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی تقریب حلف برداری سے خطاب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا’’ آزاد صحافت ایک توانا جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں اج بھی صحافت آزاد نہیں۔‘‘