• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی صف بندیوں نے عالمِ اسلام کو اضطراب میں مبتلا رکھا

ہر چند کہ 2020ء میں کورونا کی وجہ سے دُنیا بھر میں سیاسی، تجارتی اور ثقافتی سرگرمیوں سمیت دیگر معمولات خاصے متاثر ہوئے۔ تاہم، اُمتِ مسلمہ کے اعتبار سے یہ سال کافی ہنگامہ خیز رہا اوربعض انتہائی غیر معمولی واقعات کے باعث اسلامی ممالک میں پائی جانے والی تقسیم مزید گہری ہو گئی۔ گزشتہ برس نئی صف بندیاں، نئے معاہدے اور نئے سمجھوتے ہوئے، جن کے اثرات دیرپا ہوں گے اور عالمِ اسلام میں آگے چل کر مزید تبدیلیوںکا باعث بنیں گے۔

سالِ رفتہ کی ابتدا ہی میںعراق میں امریکی ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے کمانڈر ،قاسم سلیمانی جاں بحق ہو گئے۔اپنے طاقت وَر ترین جنرل کے قتل پر ایرانی سپریم لیڈر ،خامنہ ای نے کہا کہ’’ وہ امریکا سے قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لیں گے‘‘، جب کہ سعودی عرب نےاس واقعے کو ماضی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کانتیجہ قرار دیا۔ قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر جنگ کے سائے منڈلانے لگے۔ 

قتل کے چند روز بعد ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈّوں پر حملے میں 80افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا،جواباً ٹرمپ نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کے ساتھ امن کا پیغام بھی دیا اور ایران نےعالمی طاقتوں سے 2015ء میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دست برداری کا اعلان کردیا۔دوسری جانب، سعودی عرب کی زیرِ قیادت مصر، اُردن،سوڈان، ایریٹیریا،یمن، صومالیہ اور جبوتی کے درمیان محاذ قائم ہوا، جسے’’ بحرِ احمر اور خلیجِ عدن کائونسل‘‘ کا نام دیا گیا۔ دوسری جانب عراقی دارالحکومت ،بغداد میں امریکا کے خلاف مظاہرے پُھوٹ پڑے، جن میں ہلاکتیں اور امریکی افواج پر حملے بھی ہوئے، جب کہ پارلیمنٹ میںامریکی واتحادی افواج کومُلک سے نکالنے کے حوالے سے قرارداد بھی منظور کی گئی۔ نیز، حزب اللہ نے خطّے میں امریکی افواج پر حملوں کی اپیل کر دی، جس کے ردّ ِعمل میں سعودی عرب کا کہنا تھا کہ’’ امریکی فوج کے انخلا سےالقاعدہ کی واپسی کا خطرہ ہے۔‘‘اسی اثنا عراقی سیاست دان ،محمّد علاوی کو مُلک کا نیا وزیر اعظم نام زد کر دیا گیا، جسے مظاہرین نے مسترد کر دیا۔

فلسطین کی بات کی جائے، تو اسرائیلی وزیرِ اعظم ،نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مزید 2,000گھر تعمیر کرنے کی منظوری دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل ، فلسطین تنازعے کے حل کے لیے’’ دو ریاستی فارمولا‘‘ پیش کیا۔اُس نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ’’ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا۔‘‘ اس موقعے پر ٹرمپ نے حماس اور غز ہ کو غیر مسلّح کرنے کا بھی مطالبہ کیا، جس پر ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔دو ریاستی فارمولے کوفلسطین کے بعد ترکی، روس، ایران، مصر اور اردن نے بھی مسترد کردیا، جب کہ کئی عرب ممالک نے اس معاملے پر انتہائی محتاط اور متوازن مؤقف اختیار کیا۔

دو ریاستی منصوبے کے بعد فلسطینی صدر، محمود عباس نے امریکا اور اسرائیل سے ہر طرح کے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عالمی برادری سے مدد مانگی، جب کہ عرب لیگ نے منصوبے کو مسترد کر دیا۔اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد ایک اسرائیلی اخبار نے یہ انکشاف کیا کہ ’’سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین مذاکرات جاری ہیں، جن کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس میں اسلامی املاک کا کنٹرول سعودی عرب کے سپرد کرنا ہے۔‘‘ تاہم، اسرائیلی حکام نے اس تردید کی۔ علاوہ ازیں، حماس اور الفتح کے مابین 14برس بعد فلسطین میں انتخابات کروانے کا معاہدہ طے پا یا۔ اسی عرصے میں پہلی مرتبہ ابوظبی سے براہِ راست اتحاد ایئر ویز کی ایک مال بردار پرواز مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کے لیے امداد لے کر اسرائیل پہنچی۔ 

دوسری جانب، مغربی کنارے کے فلسطینی باشندے امریکی صدر کے منصوبے ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کے خلاف عالمی عدالت پہنچ گئے، جہاں ٹرمپ اور ان کے داماد کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی۔ 2020ء ہی میں اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان امن سمجھوتا ہوا۔ اس موقعے پر امریکا، اسرائیل اور متّحدہ عرب امارات کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’’مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک مشترکہ اسٹرٹیجک ایجنڈا سامنے لایا جائے گا۔‘‘ فلسطینی صدر نے معاہدہ مسترد کرتے ہوئے یو اے ای سے اپنا سفیر واپس طلب کر کے عرب لیگ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا۔ اسرائیل، عرب امارات معاہدے پر اسلامی دنیا میں واضح تقسیم دیکھی گئی۔ تُرکی ، ایران نے شدید ردّ ِ عمل کا اظہار ، جب کہ پاکستان نے محتاط رویہ اختیار کیا ۔ بعد ازاں، معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیےاسرائیل سے پہلی کمرشل پرواز امریکی و اسرائیلی وفود لے کربراستہ سعودی عرب یو اے ای پہنچی۔ یاد رہے، امارات کے بعد بحرین، سوڈان اورمراکش نے بھی اسرائیل سےروابط قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔

سعودی عرب اور متّحدہ عرب امارات میں رونما ہونے والے اہم واقعات کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ یو اے ای میں عرب دنیا کا پہلا نیوکلیئر پاور ری ایکٹر فعال ہوا۔ کووڈ 19کے پیشِ نظر سعودی عرب نےغیر ملکیوں کے بعد سعودی شہریوں اور مکینوں کے لیے بھی عمرہ ادائیگی عارضی طور پر معطّل کردی۔مکّہ اور مدینہ میں غیر معیّنہ مدّت کے لیے 24گھنٹے کا کرفیو نافذ کیا گیا ۔ بعد ازاں،مکّے میں کرفیو نرم کر کے مساجد کھول دی گئیں۔ وائرس ہی کے سبب سعودی حکومت نے مملکت میں مقیم صرف 10 ہزار افراد کو فریضۂ حج ادا کرنے دیا۔دوسری جانب، سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں کی موت کی سزا،قید کی سزا میں تبدیل کردی گئی۔علا وہ ازیں، سعودی حکام نے شاہ سلمان کے بھائی اور بھتیجے سمیت 3 شہزادوں کو بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کر لیا، پھرولی عہد محمّد بن سلمان کے حکم پر مزید 20شہزادوں کو حراست میں لیا گیا۔ علاوہ ازیں، سعودی عرب نے اپنے اسکولوں اور جامعات میں چینی زبان کو تیسری اختیاری زبان کے طور پر شامل کرلیا۔

افغانستان میں طالبان عارضی جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے، جب کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد طالبان، عبداللہ عبداللہ اور رشید دوستم نے صدر اشرف غنی کی کام یابی کا اعلان مسترد کر دیا۔ تاہم، ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ قطر کے دارالحکومت، دوحا میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا، جس کے تحت ’’طالبان، افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،جب کہ 135دن میںامریکا اپنے فوجیوں کی تعداد گھٹا کر 8ہزا ر کردے گا، جو آئندہ 9 ماہ میں نکل جائیں گے۔‘‘ معاہدے میں فوجی انخلا کو امن سے مشروط کیا گیا۔ تاہم، تاریخی افغان امن معاہدے کے چند گھنٹوں بعد ہی افغان صدر جنگ بندی کی اہم شق سے پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ ’’طالبان کے 5ہزار قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔‘‘ 

اشرف غنی کے بیان پر طالبان نے کہا کہ’’ ایسی صورت میں ہم بین الافغان مذاکرات کا حصّہ نہیں بنیں گے۔ ‘‘اسی دوران افغان فورسز پر طالبان کے حملوں میں تیزی آ گئی، جن کے جواب میں امریکا نے بھی بم باری کی۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کام یابی کے بعد افغان حکومت نے 100قیدی رہا کرنے کا اعلان کیا۔دوسری جانب، افغانستان میں داعش کا مقامی سربراہ، عبداللہ اورکزئی 19دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ امریکی میگزین نے دعویٰ کیا کہ ’’طالبان کے سربراہ ملّا ہیبت اللہ اخوند زادہ کورونا میں مبتلا ہوکر ممکنہ طور پر انتقال کر گئے ہیں۔ ‘‘ افغان حکومت نے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہم وار کرنے کے لیے خطرناک مقدمات میں مطلوب مزید 200 اسیر طالبان رہا کیے۔ جس کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات کا آغاز ہوا۔ اس دوران طالبان کی جانب سے افغان حکومت اور امریکا کے معاہدے کے انحراف کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔

ایران اسلامی دُنیا اور مشرقِ وسطیٰ کا اہم مُلک ہے، جوکورونا وبا سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں 4ہزار سے زاید ہونے کے بعد صدر حسن روحانی نے آئی ایم ایف سے 5ارب ڈالرز کا ہنگامی قرض مانگا، جب کہ کورونا کے علاج کے لیے زہریلا کیمیکل پینے سے 480ایرانی باشندے ہلاک اور ہزاروں کی حالت غیر ہو ئی۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایران نے بھارت کو چابہار منصوبے سے نکال کر چین کے ساتھ اربوں ڈالرز کا تاریخی معاہدہ کیا۔ 

نومبرمیں ایران کے ایٹمی پروگرا م کے بانی سائنس دان، محسن فخری زادہ کو تہران میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا، جس کا الزام ایران نےاسرائیل پر عائد کرتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا۔اسلامی دنیا کے ایک اور اہم مُلک ترکی کی تاریخی مسجد ،آیا صوفیہ میں 86برس بعد نماز ادا کی گئی، ترک صدر، طیّب اردوان نے خودہزاروں افراد کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی۔ 

اس موقعے پراُن کا کہنا تھا کہ’’ ہماری اگلی منزل مسجدِ اقصیٰ ہے، جسے ہم آزاد کروائیں گے۔ ‘‘تاہم، فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرنے والی اردوان حکومت نے اچانک ہی اسرائیل سے گزشتہ دو سال سے منقطع سفارتی تعلقات یک طرفہ طور پر بحال کرنے کااعلان کر دیا۔علا وہ ازیں،شامی صوبے ادلیب میں رُوس کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد ترکی نے امریکا سے بھی قربت اختیارکرناشروع کردی ۔ اندرونی خلفشار کے شکار اسلامی مُلک ،لیبیا کے دارالحکومت، طرابلس میں واقع ملٹری اکیڈمی میں جنوری کے پہلے ہفتے میں حملہ ہوا، جس میں کم ازکم 30افراد ہلاک اور 33زخمی ہوگئے ۔

لیبیا میں قیامِ امن کے لیے متحارب گروہوں کے درمیان روس میں مذاکرت کا آغا ہوا۔ تاہم، یہ بے نتیجہ ختم ہو گئے اور ایل این اےکے فوجی کمانڈر ، جنرل خلیفہ حفترجنگ بندی سمجھوتے پر دست خط کیے بغیر ہی واپس چلےگئے۔جرمنی کے دارالحکومت، برلن میں منعقدہ ’’لیبیا امن کانفرنس‘‘ میں شریک عالمی لیڈروں نے لیبیا کے حالات پر نظر رکھنے کے لیے ایک کثیرالجہت کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا۔ بعد ازاں، لیبیا کی فوج کے سربراہ ، خلیفہ حفترنے جنگ بندی پر مشروط آمادگی ظاہر کر دی۔ 

اسی اثنا اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ’’ روس نے لیبیا میں جنرل حفتر کی مدد کے لیے اپنے سیکڑوں فوجی اور جنگی طیارے بھیجے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ ترکی کی مدد سے لیبیائی حکومت نے خلیفہ حفتر کا طرابلس سےقبضہ چھڑوا لیا۔ مگرکچھ عرصے بعد ہی متحارب فریقین نے مستقل جنگ بندی اور قومی سطح پر انتخابات کا اعلان کر دیا۔

گزشتہ ایک دہائی سے خانہ جنگی کے شکار اسلامی مُلک شام میں سرکاری فوج نے صوبہ ادلیب میں ساراقیب شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔دوسری جانب بشار الاسدکی افواج کے خلاف لڑائی میں 34ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ترکی نے تارکینِ وطن کے لیے یورپ کی سرحد کھول دی اورپھر ترک صدر اردوان کی روس میں اپنےہم منصب ،پیوٹن سے ملاقات میں شام میں سیز فائر پر اتفاق کیا گیا۔ خانہ جنگی میں مبتلا ایک اور اسلامی مُلک یمن میں حوثی باغیوں کی کارروائیاں پورا سال ہی جاری رہیں۔ 

سال کی ابتدا میں حوثی باغیوں نے مارب شہر میں واقع ٹریننگ کیمپ پر میزائل حملے کیے، جس کے نتیجےمیں 30فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو ئے، جب کہ سعودی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیاگیااورسعودی عرب کا ایک جیٹ طیارہ بھی مار گرایا، جس میں دو سعودی پائلٹ لاپتا ہو ئے۔ اس واقعے کے بعد سعودی عرب نے یمن سے داغے گئے متعدد میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ،جب کہ اتحادی افواج نے بھی حوثیوں پر فضائی حملے کیے۔ 

تاہم، سال کے آخر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں فریقین نے 15 سعودی باشندوں سمیت 1,081 قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا ، جس کے نتیجے میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان گزشتہ 5برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے امکانات پیدا ہو گئے۔اسی عرصے میں وائٹ ہائوس نے یمن میں القاعدہ کے بانی رہنما ،قاسم الرحیمی کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

ملائیشیا کی بات کریں توبادشاہ نے امّتِ مسلمہ کی توانا آواز، مہاتیر محمّد کی جگہ محی الدین یٰسین کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا، جس کے بعد ملائیشین عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی، جب کہ مہاتیر محمّد نے محی الدین یٰسین کے حلف کو غیر قانونی قرار دیا۔ دوسری جانب لبنان کے دارالحکومت ،بیروت میں مبیّنہ طور پر کیمیکل ڈپومیں ہونے والے بدترین دھماکوں سے نہ صرف شہر کی عمارتیں لرز اٹھیں بلکہ یہ مُلک میں سیاسی بھونچال کا بھی باعث بنے اور عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

سالِ رفتہ آذربائیجان اور آرمینیا کی افواج کے درمیان مسلّح جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جس نے بڑھتے بڑھتے جنگ کی شکل اختیار کر لی۔ ستمبر کے آخر میں دونوں ممالک کے درمیان متنازع علاقے ،ناگورنو قرہباخ میں شدید جنگ کے بعد آذربائیجان نے آرمینیائی افواج کو پسپاکرتے ہوئے 6دیہات آزاد کروا لیے۔ اس موقعے پر ترکی اور پاکستان نے آذری باشندوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ بھارت کے دارالحکومت ،نئی دہلی میں خوں ریز مسلم کُش فسادات میں انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں درجنوں مسلمان جاں بحق اور مساجد شہید کی گئیں۔ 

مودی حکومت کے متنازع شہریت بِل کے خلاف بھی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ اس موقعے پر بنگلادیش نے بھارت سے تحریری یقین دہانی مانگی کہ وہ نئے قانون کے تناظر میں مسلم مہاجرین کوسرحد پار نہیں دھکیلے گا۔دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ان کی بنگلا دیشی ہم منصب حسینہ واجد کے درمیان رابطے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات پر جمی برف پگھلنا شروع ہوئی اور ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن 3برس کے تعطّل کے بعد مکمل طور پر فعال ہو گیا۔ 

نیز، بنگلا دیش نے15برس بعد پاکستان سے زرعی اجناس کی خریداری شروع کر دی۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر عالمِ اسلام میں شدید غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی ، جس کے ردّ ِ عمل میں مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ،جب کہ فرانسیسی صدر ،ایمانوئیل میکروں کی جانب سے آزادیٔ اظہار کی آڑ میں مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والے شر پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی بھی شدید مذمّت کی گئی۔ 

تازہ ترین