• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں شہرِ قائد میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران طلب کرنے پر وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ فوری پیش ہو گئے۔

وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی، وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ، وزیرِ توانائی امتیاز شیخ اور ترجمان حکومتِ سندھ مرتضیٰ وہاب بھی وزیرِ اعلیٰ سندھ کے ہمراہ تھے۔

کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کی۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے عدالت سے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی جس پر عدالت نے وزیرِاعلیٰ سندھ کو 1 ماہ کی مہلت دے دی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ صاحب! ہم زمینی حقائق دیکھ رہے ہیں کہ کیا تبدیل ہوا ہے؟

اس سے قبل دورانِ سماعت کراچی کے کمشنر نوید احمد شیخ عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

عدالتِ عظمیٰ نے رپورٹ نہ پیش کرنے پر کمشنر کراچی نوید احمد شیخ پر شدید اظہارِ برہمی کیا جبکہ وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو فوری پیش ہونے کا حکم دیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کمشنر کراچی نوید احمد شیخ پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ پر چارج فریم کر کے آپ کو جیل بھیج دیں گے، آپ کو پتہ ہی نہیں کراچی کے مسائل کیا ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ بتائیں عدالتی احکامات پر کتنا عمل درآمد ہوا؟

کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ میری ابھی تعیناتی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تیاری کر کے آنا چاہیئے تھا، ان لوگوں کو پتہ نہیں کیوں ہمارے سامنے پیش ہونے کے لیے بھیج دیتے ہیں، ان کو کیا معلوم کہ شہر والوں کی کیا ضروریات ہیں؟

چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے مئی 2019ء کا آرڈر پڑھا ہے؟

کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کر دی تھیں۔

چیف جسٹس نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آگے کسی اور کو کہہ دیا ہوگا، شہر میں بتائیں کیا کام ہوا؟ وزیرِ اعلیٰ سندھ کو بلوالیں، ان سے پوچھ لیتے ہیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بتا دیتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں رہنے دیں، وزیرِاعلیٰ سندھ کو بلوا لیں۔

چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ کڈنی ہل پارک کی صورتِ حال بتائیں۔

میونسپل کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ کڈنی ہل پارک سے تجاوزات ختم کرا دی ہیں، نئی مسجد کی تعمیرات کا کام ہو رہا تھا جو رکوا دیا ہے، اس کی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہے رپورٹ؟ آپ خود گئے تھے وہاں؟ عدالتی احکامات پر عمل درآمد ہوا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ہمیں باقی شہر کا بتائیں کُل کیا کام ہوا ہے وہ بتائیں، ساری بلڈنگز اپنی جگہ پر ویسے ہی بنی ہوئی ہیں، کیا کے ایم سی کے گراؤنڈز پر قبضہ ختم ہوا؟ کھوڑی باغیچہ، کھاردار، لیاری، گارڈن میں جو گراؤنڈ تھے ان کا کیا ہوا؟ باغِ ابنِ قاسم کا کیا ہوا؟ ایکوریئم بحال ہوا کہ نہیں؟ موہٹا پیلس کے سامنے کھیل کا میدان تھا کسی نے اس کے جعلی کاغذات بنا لیے تھے اس کا کیا ہوا؟

کمشنر کراچی نے بتایا کہ وہاں پر ایک باؤنڈری وال بنی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میونسپل کمشنر صاحب آپ کو نہیں معلوم کہ یہ گراؤنڈ تھا، پہلے بچے کھیلتے تھے، کسی کی نظر پڑ گئی ہو گی اس گراؤنڈ پر، کوئی بھی ہمیں مناسب جواب نہیں دے رہا۔

چیف جسٹس نے اظہارِ ناراضی کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ پر چارج فریم کر کے آپ کو سن لیتے ہیں، اب آپ کو جیل بھیج دیں گے، آپ کو پتہ ہی نہیں کراچی کے مسائل کیا ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمشنر کراچی کو کیا معلوم ہو گا، آپ دو دو مہینے کیلئے کمشنر لگاتے ہیں، ہمیں وزیرِ اعلیٰ بتائیں گے کہ کتنا عمل ہوا یہ بیچارے افسران کیا بتائیں گے؟ ان کو تو خود کچھ معلوم نہیں کہ کراچی میں کیا ہو رہا ہے، کیا ضروریات ہوتی ہیں؟

چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی سے تجاوزات ہٹانے سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرنے پر اظہارِبرہمی بھی کیا۔

کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اعلیٰ افسران کو رپورٹ جمع کرا دی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے رپورٹ آگے پھر انہوں نے اور آگے دے دی ہوگی، آپ کو کیا صرف سیٹ گرم کرنے کیلئے بٹھایا گیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ کیا کرنا ہے؟ کچھ نہیں جانتے ادھر ادھر کی باتیں مت کریں، آپ وزیرِاعلیٰ سندھ کو بلائیں ہم ان سے پوچھ لیتے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو رپورٹ کے ساتھ بلا لیتے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرِ اعلیٰ سندھ کو فوری طلب کر لیا۔

دورانِ سماعت وفاقی ادارے کے آئی ڈی سی ایل کے چیف آپریٹنگ آفیسر عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی ادارے نے کوئی ذمے داری نہیں لی ہے۔

چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ ہم نے اپنی 2 رپورٹس جمع کرا رکھی ہیں، وفاقی حکومت کے فنڈ سے گرین لائن پراجیکٹ بن رہا ہے، یہ سب سے سستا پراجیکٹ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے گرین لائن پراجیکٹ بنانے سے پہلے شہر والوں سے پوچھا تھا؟

چیف آپریٹنگ آفیسر نے جواب دیا کہ جی ہم سٹی کونسل سے وقتاً فوقتاً منظوری لیتے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ گرین لائن کی وجہ سے کتنی مٹی اور کچرا ہے؟

چیف آپریٹنگ آفیسر نے بتایا کہ پہلا فیز مکمل ہو چکا ہے، دوسرے فیز کا کام نمائش تا ٹاور جاری ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قائدِ اعظم کے مزار کے سامنے کوئی برج تو نہیں بنا دیا؟

چیف آپریٹنگ آفیسر نے بتایا کہ قائد اعظم مینجمنٹ بورڈ کی منظوری کے بعد نمائش پر انڈر گراؤنڈ کام کر رہے ہیں، گرین لائن سروس کی بسیں مئی تک کراچی آ جائیں گی، گرین لائن سے روزانہ 3 لاکھ افراد سفر کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے شہر کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، آپ نے گرین لائن سروس شروع کرنے سے پہلے کوئی سروے کرایا تھا؟ آپ نے برج بنا دیئے ہیں، نیچے کے تین تین روڈ تباہ ہو گئے ہیں۔

چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ ہم نے بیشتر سڑکیں بحال کر دی ہیں، ہم نے 4 ارب روپے کی واٹر بورڈ کی لائنیں بچھائی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پراجیکٹ کونسا خود بنایا ہوگا؟ قرضہ لیا ہوگا۔

چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ کوئی قرضہ نہیں لیا، وفاقی حکومت کے فنڈ سے پراجیکٹ بن رہا ہے۔

دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ وزیرِاعلیٰ سندھ کو پیغام پہنچا دیا گیا ہے، وہ پیش ہو رہے ہیں، جس کے بعد وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ عدالت میں پیش ہو گئے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے عدالت سے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی جس پر عدالت نے وزیرِاعلیٰ سندھ کو 1 ماہ کی مہلت دے دی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ صاحب!ہم زمینی حقائق دیکھ رہے ہیں کہ کیا تبدیل ہوا ہے؟

عدالتِ عظمیٰ نے کل تک کڈنی ہل پارک سے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کڈنی ہل پارک سے تجاوزات ختم کرا کے کل تک رپورٹ دیں۔

میونسپل کمشنر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پارک کی زمین پر گھر ہیں، کل تک رپورٹ پیش کرنا مشکل ہے، آئندہ سیشن تک رپورٹ پیش کرنے کی مہلت دی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ کل تک آپ ابتدائی رپورٹ دے دیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا کہ چیف میونسپل کمشنر کے مطابق کڈنی ہل کی 7 اعشاریہ 5 ایکڑ زمین پر قبضہ ہے، پارک کی زمین پر اسکول وغیرہ کچھ نہیں بن سکتا۔

حکام نے بتایا کہ گرین لائن بس سروس پراجیکٹ جون 2021ء تک مکمل ہو جائے گا۔

عدالت نے حکم دیا کہ گرین لائن بس سروس جون 2021ء تک چلا کر رپورٹ پیش کریں۔

سپریم کورٹ نے نمائش چورنگی پر کے ڈی اے کی زمین پر گرین لائن سروس بنانے کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کر دیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈیڑھ سال پہلے کراچی سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا۔

تازہ ترین