• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیسویں صدی کا اکیسواں برس شروع ہو گیا۔ فیض صاحب نے نومبر 1984ء کے ایسے ہی کسی کہر زدہ روز میں سوال کیا تھا،’نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے‘۔ فیض صاحب تو چلے گئے۔ مسافران رہِ صحرائے ظلمت شب کی محضر پر مہر پہ مہر ثبت ہوتی چلی جاتی ہے، رہائی کا حکم نہیں ہوتا۔ گلی کوچوں میں دندناتی وبا اور دلوں میں ٹھہرے خلا کے درمیانی منطقے پر لڑکھڑاتا 2020ء غروب کے دہانے پر تھا کہ کرک کی تحصیل بانڈہ دائود شاہ میں موضع ٹیری کا قدیمی مندر نذر آتش ہو نے کی خبر آئی۔ کوہاٹ سے کوئی 40 کلومیٹر کی مسافت پر واقع یہ گائوں ٹیری 1956 تک نوابی ریاست چلا آ رہا تھا جہاں کی وجہ شہرت مہاراج پریم ہنس کا قریب چھ ایکڑ پر پھیلا ہوا مندر اور آشرم تھا۔ تقسیم کے بعد ہندو مکین رخصت ہو گئے، مقامی باشندوں نے مندر کے احاطے پر قبضہ کر لیا لیکن گرو کی سمادھی اور مندر کا نشان باقی تھے۔ 1997ء میں ایک مقامی فتنہ پرور کو اپنی دکان چمکانے کا بہانہ درکار تھا، سو ایک مشتعل ہجوم نے بچے کچھے مندر اور گرو کی سمادھی کو بھی مسمار کر دیا۔ جاننا چاہیے کہ ٹیری میں ایک بھی ہندو گھرانا آباد نہیں چنانچہ کسی اقلیتی شہری کی طرف سے اشتعال انگیزی کا سوال خارج از امکان تھا۔ قومی اسمبلی کے رکن رمیش کمار نے احاطے کی واگزاری اور مندر کی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں مندر اور سمادھی کی ازسرنو تعمیر ہوئی۔ ملک کے دوسرے حصوں سے گاہے گاہے کچھ یاتری یہاں عبادت کے لئے آتے تھے۔ مندر کی انتظامیہ نے اسی تناظر میں عبادت گاہ کی توسیع کا ارادہ کیا جس پر اکثریتی گروہ نے ایک سیاسی جماعت کے زیر اہتمام جلسہ منعقد کیا اور حسب توقع اس جلسے سے برآمد ہونے والے ہجوم نے کدال، پھاوڑے اٹھائے اور وطن عزیز کے چہرے پر ایک اور دھبہ لگا دیا۔

ہم آپ جانتے ہیں ان دنوں ملک میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک تحریک چل رہی ہے مقصد جس کا شفاف جمہوریت کی بحالی بیان کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بانڈہ دائود شاہ کے جلسے کا اہتمام کرنے والی سیاسی جماعت کے صدر بھی ہیں۔ کیا پی ڈی ایم کے سربراہ اور ان کے کارکن جمہوریت کا مفہوم سمجھتے ہیں؟ مولانا نے ابھی اپنی جماعت کے چار رہنمائوں کو سیاسی اختلاف کی بنا پر جماعت سے خارج کیا ہے۔ کیا مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت کے ان رہنمائوں کے خلاف اقدام کی ہمت بھی فرمائیں گے جو ایک عبادت گاہ پر حملے میں ملوث ہوئے؟ مولانا 1973ء کے دستور کا بہت ذکر فرمایا کرتے ہیں۔ اس دستور کی شق 20 میں لکھا ہے کہ ’ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا نیز ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہو گا‘۔ دستور کی اسی شق کی روشنی میں عدالت عظمیٰ نے 19 جون 2014 کو ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا۔ شفاف جمہوریت کا مطالبے کرنے والوں سے التماس ہے کہ چیف جسٹس (تب) تصدق حسین جیلانی کے تحریر کردہ اس فیصلے پر ایک نظر ڈال لیں۔ جمہوریت صرف ووٹ کی پرچی کا احترام نہیں، جمہوریت کا بنیادی اصول بغیر کسی امتیاز کے ہر شہری کا احترام اور تحفظ ہے۔ چیف جسٹس محترم گلزار احمد کرک واقعے کا از خود نوٹس لینے پر قوم کے شکریے کے مستحق ہیں۔ وفاقی کابینہ سے محترمہ شیریں مزاری اور محترم فواد چوہدری نے اس سانحے کی مذمت کی ہے۔ فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’کرک میں ہندو سمادھی کو آگ لگانا اقلیتوں کے خلاف ذہن سازی کا شاخسانہ ہے، مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگردی سے تو فوج لڑ سکتی ہے لیکن شدت پسندی سے لڑنا سول سوسائٹی کا کام ہے۔ ہمارے اسکولوں سے لے کر معاشرتی محفلوں تک شدت پسندی کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا اور ہم اس دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔‘

فواد چوہدری کو غالباً علم نہیں ہوا کہ عین اسی روز جب کرک میں ’شدت پسندی‘ کا کھیل کھیلا جا رہا تھا، ملک کے وزیر اعظم جناب عمران خان ایک اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے جہاں انہیں ’ہائبرڈ وار فیئر اور این جی اوز کی سرگرمیوں‘ کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ بریفنگ کن اصحاب نے دی؟ یہ خبر البتہ دی گئی کہ وزیر اعظم نے ’اسلاموفوبیا، دہشت گردی، انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق‘ کی آڑ میں ’بیرونی ایجنڈے‘ پر کام کر کے ’ملک کو بدنام‘ کرنے والی ’فارن فنڈڈ‘ این جی اوز کی رجسٹریشن ’24 گھنٹے کے اندر‘ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ واللہ خبر کے یہی الفاظ ہیں ورنہ درویش کی مجال نہیں کہ ’فارن فنڈنگ‘ یا اس سے متعلقہ کسی مقدمے کی طرف اشارہ بھی کرے۔ ہماری درخواست ہے کہ فواد چوہدری اپنے وزیر اعظم سے ملاقات کر کے ان سے ’سول سوسائٹی‘ کا مطلب سمجھ لیں۔ وزیر اعظم ماشااللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اسلاموفوبیا اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہیں یقیناً علم ہو گا کہ کوئی ملک سخاروف، نوم چومسکی، اروندھتی رائے، عاصمہ جہانگیر اور ملالہ یوسف زئی کے موقف سے بدنام نہیں ہوتا۔ فیض کی غزل اور پاسٹر ناک کا ناول ملک کی توقیر ہوتے ہیں۔ سول سوسائٹی کسی ملک میں جمہوری اقدار کی ضمانت ہوتی ہے۔ قومیں جمال خشوگی یا ڈینیل پرل کے قتل اور لوجین الھذلول یا علی وزیر کی اسیری سے بدنام ہوتی ہیں۔ سوئے اتفاق ہی سمجھنا چاہیے کہ جناب وزیر اعظم کو جن ممالک سے شیفتگی ہے وہاں سول سوسائٹی کا وجود نہیں ہوتا۔

بے معنی ریاستی بیانیہ ہوتا ہے اور اس خرافات کی تکرار سے ضمیر فروش طائفہ مفادات کا کھیل کھیلتا ہے۔ جمہوریت اپنے شہریوں کے ضمیر کی سچائی سے توانائی پاتی ہے۔ اپنی ریاستوں کے عذر خواہ کارندے تو اقوام متحدہ میں بہت ملتے ہیں۔ کوئی بابری مسجد کا نوحہ کہتا ہے اور کوئی بانڈہ دائود شاہ کے مندر پر ماتم کرتا ہے۔

تازہ ترین