• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرطان پورہ کی غیراصلاحی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ڈھائی سال بعد ٹھیکیدار اسلام شاہ کی زیرصدارت ٹنڈے پہلوان کی بیٹھک میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں معززین علاقہ کی شکایات کا نوٹس لیا گیا اور موقع پر ہی اہم فیصلے کئے گئے۔ اس نوعیت کے ایک اجلاس کی تفصیلی کارروائی غیر اصلاحی کمیٹی کے پی آر او کے طور پر میں نے تمام اخبارات کو ارسال کرنے کے علاوہ اپنے کالم میں بھی شائع کی تھی!

ٹنڈے پہلوان نے صدر ِ جلسہ کی توجہ شہر میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کی طرف دلائی اور کہا کہ پولیس اس سلسلے میں سارا مردہ اس پر ڈال رہی ہے۔ ٹنڈے پہلوان نے بتایا کہ پولیس اس پر بیس پچیس افراد کے قتل کا الزام لگا رہی ہے حالانکہ وہ ایک ہاتھ سے زیادہ سے زیادہ دس بارہ افراد کو ٹھکانے لگا سکتا ہے۔ ٹنڈے پہلوان نے اس امر پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا کہ گزشتہ روز پولیس اس کے گھر میں گھس آئی جس سے گھر میں موجود پردہ دار بیبیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سن کر غیراصلاحی کمیٹی کے سبھی ارکان شدید غصے میں آگئے اور انہوں نے بیک آواز کہا کہ شعائر اسلامی کی یہ بے حرمتی قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی۔ اجلاس میں علمائے کرام سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے جمعہ کے خطبہ میں پولیس کی ان چیرہ دستیوں کا پردہ چاک کریں۔ صدر ِ جلسہ نے حاضرین کو پرامن رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ غیرضروری طور پر کسی کی جان نہیں لینی چاہئے۔ انہوں نے ٹنڈے پہلوان کو بھی مشورہ دیا کہ وہ کچھ دنوں کے لئے بمعہ اہل خانہ اس کے فارم ہاؤس میں چلا آئے وہاں پولیس کو داخلے کی اجازت نہیں اور یوں پردہ دار بیبیاں بھی غیر محرموں کی نظروں سے محفوظ رہیں گی!

سرطان پورہ کی غیراصلاحی کمیٹی میں علاقے کے ممتاز ہیروئن فروش بلّے گاڈی نے بھی شکایات کا انبار لگا دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ پولیس اپنی روزی روٹی کمانے والے غریب کارکنوں کی پکڑ دھکڑ میں مشغول رہتی ہے۔ بیروزگاری کے اس دور میں یہ کارکن ہیروئن کی پڑیاں فروخت کرکے اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں مگر پولیس ان کے اس کام میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتی ہے۔ پولیس اہلکاروں کاکہنا ہے کہ جب وہ یہ پڑیاں خود بازار سے ارزاں نرخوں پر فروخت کرتے ہیں تو کسی باہر کے آدمی کو کار ِ سرکار میں مداخلت کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ اس مسئلے پر ہمارے کارکنوں اورپولیس کے درمیان کئی بار تصادم بھی ہوچکا ہے۔ بلّے کا کہنا ہے کہ کارکنوں کے اس معاشی قتل کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اگر پولیس کی کارروائیاں جاری رہیں تو اس صنعت سے وابستہ ہزاروں کارکن بیروزگار ہوجائیں گے۔ صدر ِ جلسہ نے ا س مسئلے کو نہایت سنگین اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ مسئلہ بھی اپنی پارٹی کے اجلاس میں زیربحث لائیں گے اور اس کا کوئی ایسا حل تلاش کرلیاجائے گا جو پولیس اورہیروئن کے کاروبار سے وابستہ کارکنوں دونوں کے لئے قابل قبول ہو۔

صدر جلسہ نے ایک نکتہ یہ بھی اٹھایاکہ ہماری حکومت نے ماضی کی پالیسی برقرار رکھتے ہوئے دراصل امریکہ اور یورپ کے بچوں کو ہیروئن سے محفوظ رکھنے کیلئے سرحدوں پر بہت زیادہ ’’سختی‘‘ شروع کر رکھی ہے جس کی وجہ سے ہماری ہیروئن کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور یوں پاکستان کو ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ صدر ِ جلسہ نے وعدہ کیا کہ وہ پارٹی کے اجلاس میں زوردیں گے کہ مغرب کو برآمد کی جانے والی ہیروئن پر پابندیاں نرم کی جائیں کیونکہ اس سختی کی وجہ سے اس کاروبار سے وابستہ افراد کو مجبوراً اپنی یہ پروڈکٹ پاکستان میں نہایت کم قیمت پر بیچنا پڑتی ہے اور غربت کی وجہ سے ہمارے بچوں کے لئے یہ قیمت بھی زیادہ ہے لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی ہیروئن پر سبسڈی بھی دے تاکہ یہ انمول چیز ہمارے ہر بچے اور نوجوان کی دسترس میں بآسانی آسکے۔ حکومت یہ اقدام مغرب کے نوجوانوں اور بچوں کی جانوں کے صدقے کے طور پر اٹھائے۔امید ہے اس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی مزید بہتری آئے گی!

اجلاس میں ملک میں عدم برداشت اور انتہاپسندی کے مسئلے پر بھی غور کیا گیا۔ اس صورتحال پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مولانا اِدھر علی اُدھر نے یہ تجویز پیش کی کہ حکومت دینی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ یکسر ترک کردے اور نام نہاد اسلامی سکالروں کی باتوں پر دھیان دینے کی بجائے اسلام کی تشریح صرف اس خاکسار پر چھوڑ دی جائے، وہ جس چیز کو اسلامی کہیں وہ اسلامی اور جسے غیراسلامی قرار دیں اسے غیراسلامی تسلیم کر لیا جائے۔ جو شخص ان تشریحات سے روگردانی کرے اسے سزا دینے کا اختیار ہر مسلمان کو ہونا چاہئے۔ امید ہے اس سے ان مسائل پر بات ہی نہیں ہوسکے گی اور یوں برداشت یا عدم برداشت کا سوال پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ حاضرین جلسہ نے اس تجویز کی تائید کی اور صدر ِ جلسہ نے فرمایا کہ وہ اپنی پارٹی کے اجلاس میں یہ تجویز پیش کریں گے۔اگر حکومت اپنی من مانیاں کرتی رہے اور مذہبی پیشوا مذہب کے محاذ پر خودمختار رہنے کا عہد کریں تو یہ اتحاد ملک و ملت کے لئے نیک فال ثابت ہوگا اور یوں ملک ایک بار پھرترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا!

اجلاس کے اختتام پر نماز ِ عصر باجماعت ادا کی گئی او ر پاکستان کی سلامتی اور اسلام کی سربلندی کے لئے گڑگڑا کر دعائیں مانگی گئیں۔ اس دوران بہت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے!

تازہ ترین