• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شفیق الرحمن جیسا لطیف اور شگفتہ ادب کس نے لکھا ہو گا۔ پچھلے دنوں بہت یاد آئے بلکہ سچ پوچھئے تو ان کی کسی کتاب میں شامل یہ شعر بہت یاد آیا:
آپ نے میرا انتخاب کیا
آپ کے انتخاب کے صدقے
ہر طرف اسی الیکشن کی بات ہو رہی ہے۔ لاکھ سوچا تھا کہ بہت ہو گیا، میں انتخابات پر رائے زنی نہیں کروں گا لیکن دل یوں نہیں مانتا کہ میری اس تحریر کا عنوان ہے ’دوسرا رُخ‘۔ الیکشن کے نام پر جو منظر آنکھوں کے سامنے سے گزرگئے اور ہزارہا لوگوں پر ہزار طرح کا تاثر چھوڑ گئے مگر جو نقش میرے ذہن پر ثبت کر گئے وہ اگر میں نے کاغذ پر منتقل نہ کیا تو دل و دماغ میں چٹکیاں لیتا رہے گا۔
پہلے تو یہ اعتراف کر لوں کہ میں خود کو ان عام لوگوں میں شریک کرتا ہوں جو مجمع کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ اب میری توقیر بڑھے یا گھٹے، مجھے غرض نہیں لہٰذا میں بھی انتخابات کی اس دوڑ میں ادھر کو چلا، ہوا تھی جدھر کی۔ اس مجمع نے گرد تو بہت اڑائی مگر جب یہ گرد چھٹی تو اندر سے ایک دوسرا ہی منظر نکلا۔ اب میں اپنی بات لاہور شہر کے ایک پولنگ اسٹیشن کے واقعے سے شروع کرتا ہوں۔ یہ پولنگ اسٹیشن خواتین کیلئے مخصوص تھا جہاں نواحی بستیوں اور کچی آبادی کی خواتین بھی اپنا ووٹ ڈالنے آئی تھیں۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا تھا لیکن اس روز ان کا ولولہ انہیں گھروں سے نکال لایا تھا۔ چنانچہ پولنگ اسٹیشن پر وہ میلے میں کھو جانے والے بچّے کی طرح ہراساں پھر رہی تھیں۔ آخر ان میں سے ایک نے کچھ تعلیم یافتہ خواتین کے قریب جا کر پوچھا۔’بلّے والا کمرہ کون سا ہے؟ بس یہی بھولپن میرا آج کا موضوع ہے۔ ہر الیکشن کی طرح اس میں بھی دو فریق تھے۔ ایک جانب پرانے، گھاگ، تجربہ کار، منجھے ہوئے اور زندگی میں کئی کئی الیکشن بھگتا دینے والے لوگ، دوسری طرف میلے میں پہلی بار آنے والے اور انگلی چھوڑ کر کھو جانے والے بچّے۔ یہ سادہ لوگ بلّے والا کمرہ ڈھونڈتے رہ گئے اور انہیں تاکنے والے جہاں دیدہ لوگوں نے انہیں اُچک لیا۔ ان کی پرچی کہاں گئی اور اس پرچی پر نشان کہاں لگا، کس نے لگایا، چار تہوں میں کس نے لپیٹا ، بکسے میں کس نے ڈالا، یہ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے اور اُن کے ہاتھوں مات کھا گئے جنہوں نے ادھر کا مال اُدھر کرنے میں عمریں لگا دی تھیں۔
کراچی کی تو بات ہی اور ہے وہاں جیتنے والوں کو کوئی کچھ بھی کر لے، ہرا نہیں سکتا۔ جیسے ہارنا بعض لوگوں کے مقدر میں ہوتا ہے، سندھ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ فتح جن کا مقدر ہے اس لئے ان کے معاملے میں صبر کر لیا جائے تو اچھا۔ جس بحث سے کچھ حاصل نہ ہو اس پر دماغ کھپانے سے خاموشی ہزار درجہ بہتر ہے۔
مشکل تو بہت ہے لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ انتخابات فرشتوں کی نگرانی میں ہوئے ہیں تو کچھ باتیں بے حد حیران کرتی ہیں۔ کہیں کہیں ووٹ ڈالنے والوں نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے ایسے ایسے امیدواروں کو خوار کر دیا کہ یقین نہیں آتا۔ مزاروں، درباروں، خانقاہوں کے بڑے بڑے نامورگدی نشینوں کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کے ان گنت مریدوں نے پرچی پر ان کے انتخابی نشان سے نگاہیں پھیر لیں۔ یہ کیسے ہو گیا کہ ایک سے ایک عالی مرتبت سجادہ نشین مات کھا گیا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ایک گدی نشین اور اعلیٰ وفاقی وزیر کے علاقے کے لوگوں کو میں نے یہ کہتے سنا تھا کہ ہمیں جو حکم ملتا ہے اسی کے مطابق ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس پر ان سے پوچھا گیا کہ اگر تم سے کہا گیا کہ گدھے کو ووٹ دو تو ایک اچھا بھلا مجمع زیرِ لب بولا ’ہم گدھے کو ووٹ دے دیں گے‘۔ حیرت ہے ، اُسی مجمع نے انسان کو ووٹ دے دیا۔
مجھے یاد ہے، ایک بار انتخابات کے دوران میں کالا باغ، کمر مشانی ، داؤد خیل اور میانوالی کے علاقے میں تھا جہاں دو نہایت تعلیم یافتہ ، ذہین اور خوش وضع نوجوان امیدوار ملے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا قانون داں تھا۔ دونوں اپنے علاقے میں گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے تھے اور اس پسماندہ علاقے کے اتنے ہی پسماندہ لوگ پہلی بار دو اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کو حمایت کا یقین دلا رہے تھے پھر یہ ہوا کہ جس صبح پولنگ ہونی تھی، اُس رات علاقے کے پیر صاحب نے ہر جانب اپنے ہرکارے دوڑا دےئے اور اپنے معتقدین کو خبردار کیا کہ جو کوئی فلاں بزرگ کو ووٹ نہیں دے گا اس کے نکاح سے لے کر میدان حشر میں اس کی بخشش تک ہر چیز خطرے میں پڑ جائے گی۔ لوگ یہ سن کر لرز گئے چنانچہ فلاں بزرگ جیت گئے۔ اچھے خاصے قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے، توانا ہو کر اُٹھ بیٹھے اور نہ صرف پارلیمان میں جا پہنچے بلکہ وہاں شعر بھی پڑھنے لگے۔
اب اگر معتقدین حکم عدولی کر رہے ہیں تو یہ ایک ایسا ذہنی انقلاب ہے جس کے بعد چند ایک دھاندلیوں کو معاف کیا جاسکتا ہے۔
یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اُسی روز میانوالی سے ڈاکٹر فلاں نیازی بے شمار ووٹ لے کر نہایت شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ کسی نے کہا کہ اس علاقے میں بجلی کا کھمبا بھی اگر نیازی ہو تو جیت جائے گا۔ میں وہیں موجود تھا ۔ انتخابات لڑنے والوں پر دباؤ تھا کہ وہ اپنے الیکشن کے اخراجات کے گوشوارے مع رسیدوں کے داخل کریں۔ کوئی یقین نہیں کرے گا کہ ڈاکٹر صاحب اس شان سے جیتے کہ ان کی جیب سے کچھ بھی خرچ نہیں ہوا تھا لیکن الیکشن کمیشن کے سامنے جاکر یہ بات کہنا کچھ معیوب سا تھا لہٰذا شامیانے، لاؤڈاسپیکر، کھانے پینے اور برتن بھانڈے جیسے اخراجات کی فرضی رسیدیں بنوائی جا رہی تھیں تاکہ الیکشن کمیشن کو نہ صرف رسیدیں بلکہ منہ بھی دکھایا جا سکے۔
گدّی نشینوں کا سحر ٹوٹا، ترقی کے نام پر دولت نچھاور کرنے والوں کو بھی اپنی چال بازی کے بدلے میں خواری ملی، الیکشن لڑوانے کے بڑے نامور اور جہاں دیدہ گرُو کچّی دیوار کی طرح ڈھے گئے، یہاں تک تو دل سے آہ کے بجائے واہ نکلتی ہے لیکن یہ ذات برادری کی مصلحتیں مارے ڈالتی ہیں۔ شاید اوپر والا ہی جانے کہ یہ کب ختم ہوں گی، ہوں گی بھی یا نہیں۔ کب امیدوار کو اس کی لیاقت اور قابلیت، اس کے جذبے اور ولولے کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جائیں گے اور کب کچی آبادیوں کی عورتوں کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ بلّے والا کمرہ کون سا ہے؟
تازہ ترین