اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے معاملے پر چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔
چیف کمشنر اسلام آباد نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نوجوان کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کی انکوائری کریں گے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انکوائری رپورٹ 5 دن میں جمع کروائیں گے۔
اسلام آباد: CTD فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت معمہ بن گئی
اسلام آباد میں پولیس کی فائرنگ سے کار سوار نوجوان کی ہلاکت معمہ بن گئی، ابتدائی رپورٹ کے مطابق نوجوان کو 22 گولیاں ماری گئی ہیں، والد نے بتایا کہ پولیس والوں نے اعتراف کیا ہے بچہ بے قصور تھا۔
کار سوار اسامہ کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میرے بیٹے کو 16،17 گولیاں ماری گئیں جس سے وہ جاں بحق ہوا۔
اسامہ ندیم کے والد کا کہنا تھا کہ پولیس والوں نے اعتراف کیا کہ بچہ بے قصور تھا،ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ٹائر کے بجائے ونڈ اسکرین پر فائر کرکے کھلم کھلا دہشت گردی کی،وزیراعظم، وزیرداخلہ ،اسلام آباد انتظامیہ سےانصاف کی اپیل کرتا ہوں۔
دوسری جانب پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی اہلکار ایچ 13 میں ڈکیتی کی اطلاع پر پہنچے، سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی، نہ رکنے پر اہلکاروں نے گاڑی کا تعاقب کیا۔
سب انسپکٹر کا کہنا ہے کہ گاڑی والے نے ان پر فائرنگ کی جس پر اہلکاروں نے جوابی فائرنگ کی، نوجوان کو 22 گولیاں لگیں،ترجمان پمز وسیم خواجہ کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے مطابق سامنے سے گولیاں ماری گئی ہیں۔
وقوعہ کےمتعلق پولیس کی ابتدائی رپورٹ کی کاپی بھی سامنےآئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی کی گاڑی میں ایک سب انسپکٹراور4 جوان سوار تھے،اہلکارایچ 13 میں ڈکیتی کی اطلاع پرموقع پرپہنچے تھے۔
سی ٹی ڈی اہلکاروں نےگاڑی کوروکنےکی کوشش کی، نہ رکنےپر اہلکاروں نے گاڑی کا تعاقب کیا ، سب انسپکٹر کا کہنا ہے گاڑی والے نے ان پر فائرنگ کی،اہلکاروں کی جوابی فائرنگ سے نوجوان کو 22گولیاں لگیں۔
ابتدائی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گاڑی سے کوئی اسلحہ نہیں ملا، نوجوان کا نام اسامہ ندیم ہے اور وہ ورچول یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق پانچوں اہلکاروں کو تحویل میں لےلیا گیا ہے۔