ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے!
2013 کے عام انتخابات بخیر و خوبی انجام پائے، کہاں کی دھاندلی، کیسا احتجاج؟ سب کچھ توطے شدہ منصوبے کے تحت ہوا۔ سب لوگوں کو ”حصہ بقدر جثہ“ ملا… ہاں کہیں کہیں مصالحہ تھوڑا زیادہ لگ گیا۔ جس کی جلن کے باعث چند شرپسند قسم کے لوگ بے چین اور بے قرار ہیں، احتجاج کر رہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے، آہستہ آہستہ سب کو سکون آ جائے گا، بالکل فیض احمد فیض# کے شعر کی طرح کہ:
جیسے صحرا میں چلے ہولے سے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
آج کوئی بھی جو چاہے بولی بولے، مگر حق بات یہ ہے کہ سب کو پتہ تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی، مسلم لیگ (ن) کو بھی، ایم کیو ایم کو بھی اور اے این پی کو بھی، فوج والوں کو بھی اور شاید عدلیہ والوں کو بھی … لاعلم تھے تو شاید اپنے فرشتہ صفت چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور بزرگ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو…کہ ”جانے نہ جانے، گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے“
سب کو علم تھا کہ ریاض، لندن اور برسلز میں ہونے والی ملاقاتوں میں کیا طے پایا ہے ( ان ملاقاتوں میں پاکستان کے انتخابی حلقے یقینا زیربحث نہیں آئے تھے نہ یہ طے پایا کہ ووٹ ڈلوانے اور ووٹ بڑھانے کا طریقہ کار کیا ہوگا… یہ کام مقامی قیادتوں پر چھوڑ دیا گیا) ان ملاقاتوں کے نتیجے میں، جو بھی منصوبہ بنا، وہ امریکہ اور پاکستان کے لئے بہرحال ضروری تھا۔ ان انتخابات میں بالکل وہی ہوا ، کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوئی…
سب سے پہلے پیپلزپارٹی!
پیپلزپارٹی کا 2008 سے 2013 تک کا دور INERTIA کا د ور تھا۔ اردو میں آپ اسے ”بے عملی“ کہہ لیجئے! صدر زرداری نے اپنے لئے عہدہ صدارت کا انتخاب کرکے خود کو مقدموں سے تو بچا لیا مگر پیپلزپارٹی کو قیادت سے محروم کردیا۔ انہوں نے ”ریموٹ کنٹرول“ سے قصر صدارت میں بیٹھ کر پیپلزپارٹی کی سیاست چلانے کی کوشش کی مگر بالاخر عدالتوں کے دباؤ پر انہیں اپنا سیاسی کردار بڑی حد تک ختم کرنا پڑا۔ مگر اس تمام عرصے میں پیپلزپارٹی عوامی پارٹی سے زیادہ محلاتی سازش کدہ اور ٹی پارٹی بن کر رہ گئی۔ دوسری طرف صدر زرداری کے ساتھیوں اور اتحادیوں نے کرپشن کا وہ بازار گرم کیا کہ سماجی انصاف اور گڈگورننس کی چڑیا اس ملک سے ہی اڑ گئی۔ تیسری طرف خارجہ پالیسی کے محاذ پر صدر نے فوج سے مفاہمت کے نام پر سب کچھ فوج کو ہی سونپ دیا۔ انڈیا پالیسی ہو یا امریکہ سے تعلقات، افغانستان کا بحران ہو یا چین سے تعلقات، ان سب معاملات میں سیاسی حکومت کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر رہا۔ فوج کو اختیار تومل گیا مگر فوج ایک سیاسی Cover سے محروم ہوگئی۔ پھر فوج کو داخلی سطح پر بھی دہشت گردی کے جن سے نمٹنا تھا۔ امریکہ نے بہت دیر تک زرداری صاحب پر بازی لگائے رکھی مگر جب وہ رفتہ رفتہ عوامی تائیداور حمایت سے محروم ہوگئے اور ان کا حق حکمرانی کا اخلاقی جواز دم توڑ گیا تو امریکہ بہادر کو اپناگھوڑا بدلنا پڑا۔
آنے والے وقت میں سب سے اہم ایجنڈا افغانستان سے امریکی فوجوں کا بحفاظت انخلا ہے۔ اس کام کے لئے امریکہ کو پاکستان میں ایک Pro-Acive مضبوط اور طالبان سے ہمدردی رکھنے والی حکومت چاہئے تھی جو افغانستان سے امریکہ کا پرامن فوجی انخلا یقینی بنا سکے۔ وہ حکومت میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں قائم ہونے جارہی ہے!
اس سارے کھیل میں کس کس کو کیا ملا، کیا ملے گا؟پیپلزپارٹی کو سندھ حکومت عطا ہوئی (نگرن صوبائی حکومت، اضافی وزیر اور مرضی کی بیوروکریسی سب اس بات کی کھلی کھلی نشانیا ں ہیں) کہ پانچ سال ”دہی کے ساتھ روٹی کھاؤ“ اور آرام کرو تاوقتیکہ لوگ تمہارا پچھلا پانچ سالہ دور بھول نہ جائیں!ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو برقرار رکھتے ہوئے، انہیں سندھ حکومت میں برابر کا حصہ ملے گا۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت پوری سج دھج سے قائم ہوگی… امریکہ پاکستان کے فوری مسائل (بجٹ کا خسارہ، سرکلر ڈیٹ وغیرہ) ختم کرنے کے لئے IMF سے معاشی امداد دلوائے گا۔ شاید گرمیاں ختم ہونے تک لوڈشیڈنگ میں قدرے کمی آ جائے! ریاض اور لندن بھی پاکستان کی معیشت بحال کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ وفاقی حکومت کی Smooth Sailing کے لئے پنجاب حکومت بھی مسلم لیگ کو سونپ دی گئی ہے! امریکہ افغانستان سے جائے گا تو وہ تمام فوجی سامان، جس کی باربرداری کا خرچہ اس کی قیمت سے زیادہ ہوگا، پاکستانی فوج کو سونپ کر جائے گا۔ جس کی قیمت بہرحال اربوں ڈالر ہوگی۔مسلم لیگ خود کو جنرل مشرف کے ”پھڈے“ میں الجھانا چاہے گی نہ اس مسئلے پر فوج سے کشیدگی کا آغاز کرنا پسند کرے گی۔ اس لئے نگران حکومت کے دور میں ہی ”مشرف تو چلا جائے گا، یہ وقت پھر نہیں آئے گا“ وغیرہ وغیرہ!اس سارے چکر میں امریکہ عزت کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہو جائے گا۔ ان کی ناک اونچی رہے گی، اللہ اللہ خیر صلا!جب سب کچھ نقشے اور جغرافئے کے مطابق ہو رہا ہے تو دھاندلی کیوں؟ اور احتجاج کیا؟ہاں ایک اہم سوال!اس سارے کھیل میں پاکستانی عوام کو کیا ملا؟پاکستانی عوام کو صرف ”کنفیوژن“ ملا! وہ کیسے؟ آیئے دیکھتے ہیں!دو پڑھے لکھے لوگ آپس میں بات کر رہے تھے! ایک نے دوسرے سے کہا!”یار… الیکشن ہوئے اتنے دن ہو چکے ہیں۔ نئی حکومت بننے میں خواہ مخواہ اتنی تاخیر کی جارہی ہے، عوام کنفیوز ہو رہے ہیں!“دوسرے نے پوچھا ”عوام کیوں کنفیوز ہو رہے ہیں؟“
پہلے عقلمند نے جواب دیا ”یار! پچھلی حکومت چلی گئی، اگلی حکومت بنی نہیں… لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر گالی دیں تو آخرکسے گالی دیں؟“