سپریم کورٹ آف پاکستان میں کرک میں مندر جلائے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے حکم دیا کہ مندر کی دوبارہ تعمیر کیلئے مولوی شریف سے پیسے وصول کیئے جائیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں کرک میں مندر جلائے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
دورانِ سماعت خیبر پختون خوا کے آئی جی اور چیف سیکریٹری عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ آئی جی صاحب! ساتھ پولیس چوکی ہے، یہ واقعہ کیسے ہوگیا؟ جب اتنے لوگ جمع ہوئے تو آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟
آئی جی کے پی کے نے بتایا کہ ایس پی، ڈی ایس پی سمیت ڈیوٹی پر مامور 92 اہلکاروں کو معطل کیا ہے، واقعے میں ملوث 109 افراد گرفتار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جمعیت علمائے پاکستان کا اس جگہ پر اجتماع تھا، مولانا فضل الرحمٰن نے اس اجتماع کو اسپانسر کیا، 6 علماء میں صرف مولوی شریف نے احتجاج پر اکسایا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو صرف معطل کرنا کافی نہیں ہے، اس واقعے سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سوشل میڈیا پر واقعے کی تمام تصاویر دنیا بھر میں پھیل گئیں۔
چیف سیکریٹری کے پی کے نے عدالت کو بتایا کہ کے پی حکومت ہندو سمادھی کو ازسرِ نو تعمیر کرے گی اور مندر کی ازسرِنو تعمیر کا خرچ برداشت کرے گی۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جن لوگوں نے مندر کو جلایا ان سے پیسے ری کور کریں، مندر کی تعمیر کیلئے مولوی شریف سے پیسے ریکور کیئے جائیں، جب تک ان لوگوں کی جیب سے پیسے نہیں نکلیں گے یہ دوبارہ یہی کام کریں گے۔
چیئرمین اقلیتی کمیشن شعیب سڈل نے عدالت کو بتایا کہ اس واقعے سے پورے ملک کی بدنامی ہوئی، کے پی متروکہ وقف املاک نے مندر کی جگہ کا تحفظ نہیں کیا، کرتار پور کی طرح یہ جگہ ہندوؤں کیلئے مقدس ہے۔