جوانی وہ عرصۂ حیات ہے کہ جس میں اِنسان کے قویٰ مضبوط، ہمّتیں جوان اور حوصلے بُلند ہوتے ہیں،رگوں میں خون بجلیاں بن کر دوڑتا ہے۔ وہ پہاڑوں سے ٹکرانے کا عزم رکھتا ہے لیکن جب ان کے راستے مسدود کر دیئے جائیں تو گھٹن محسوس کرنے لگتا ہے اور پھراس کا رَدِعمل ہوتا ہے، کسی بھی صورت میں شعوری کاوش ان کو معنویت عطا کر دیتی ہے۔ آج جو نوجوان باغی ہیں وہ معاشرے کے جبر کا نتیجہ ہیں۔
یہ اس گھٹن کے خلاف بغاوت ہے۔ اس رویئے کے خلاف اظہارِ ناراضگی ہے جو ریاست اور سماج نے رَوا رکھا ۔ ایک طرف تو نوجوانوں کو مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے اور آنے والے وقت میں ملک کی باگ ڈور اِن کے سپرد کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن عملاً نہ تو انہیں کسی مشاورت میں شامل کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی رائے لی جاتی ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، کیا سوچتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں نوجوان دو طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو امیر ہیں اور اپنی موج مستی میں مست، دُوسرا طبقہ متوسط اور غریب نوجوانوں کا ہے جو محنت سے پڑھتے ہیں لیکن جب اس کے اچھے نتائج نہیں ملتے تو ان کے اندر باغیانہ رویّہ سر اُبھارنے لگتا ہے ۔ نوجوان من چاہی خواہشات کے پورا نہ ہونے پر پہلے برہم پھر سیخ پا اور اس کے بعد شدید اضطرابی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہیں سے وہ سلسلہ چل نکلتا ہے جسے عوام الناس بغاوت کا نام دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ اپنی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم نے اسی تناظر میں کچھ ماہرِ نفسیات، اہلِ علم اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے سوال کیا کہ ’’آج کا نوجوان باغی کیوں ہے؟‘‘ کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، وہ نذرِ قارئین ہے۔
ڈاکٹر قدسیہ طارق،جامعہ کراچی میں شعبہ نفسیات کی چیئرپرسن ہیں۔ انہوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ نوجوان باغی ہو رہے ہیں لیکن اس کے پسِ پشت کیا عوامل کارفرما ہیں وہ نہیں دیکھتے۔ پہلی بات تویہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کو لگتا ہے کہ ان کو کوئی سمجھتا نہیں، ان کی باتوں کو سمجھنے کے بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کا موازنہ دُوسروں سے کیا جاتا ہے۔ جو رائے ان کے متعلق مسلّط کی جاتی ہے وہ اس سے اختلاف کرتے ہیں تو ان کو بدتہذیب، بدتمیز قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اُن کے اندر غصّے کے جذبات سر اُبھارنے لگتے ہیں، بالآخر وہ بغاوت پر اُتر آتے ہیں۔ آج کل والدین فکر معاش میں اس قدر غلطاں ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو وقت ہی نہیں دے پاتے۔
جب اولاد جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو وہ والدین کو اپنے فیصلوں میں شریک نہیں کرتے وہ اپنے آپ کو خودمختار سمجھنے لگتے ہیں اور جب والدین ان کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں تو وہ برہم ہوتے ہیں اور ان کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں یہ بھی ایک طریقے سے بغاوت ہے۔ڈاکٹر قدسیہ نےبات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں توازن نہیں۔ غریب طبقے کے جوان امیر طبقے کے نوجوانوں کو عیش و عشرت کی زندگی گزارتا دیکھ کر احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں، حسد کا جذبہ ان کے اندر بھٹی کی طرح دہکنے لگتا ہے اور یہ محرومی ان کو بغاوت پر اُکساتی ہے، جو انہیں نہیں مل رہا اُسے چھین لینے کے چکر میں غلط راستوں پر نکل جاتے ہیں۔ بعض نوجوان راہ فرار کے لیے منشیات کا استعمال کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کے اندر کا غصّہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
فرسٹریشن کا شکار ایسے بھی نوجوان میرے کلینک میں آئے جو اپنے آپ کو جسمانی اذیت دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں تھوڑی دیر کے لیے جسمانی اذیت ذہنی اذیت کوکم کر دیتی ہے۔ایک اور بات یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان وہ کام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو اُن کے معیار کے مطابق نہیں۔ وہی کام ان سے کم پڑھا لکھا کر رہا ہے۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کر پاتے۔ یہ سارے عناصر نوجوانوں کو باغی بنا رہے ہیں۔
جب تک ہم اُن کے مسائل کو نہیں سمجھیں گے ان کا غصّہ بڑھتا چلا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ کونسلنگ سینٹربنائیں جہاں نوجوان اپنا اظہار کرسکیں۔ ایسے پروگرام بنائیں جس میں شامل ہو کر وہ اپنے ہنر کو سامنے لائیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اولاد کو وقت دیں، ان کے مسائل کو سُنیں، سمجھیں اور حل کریں۔ صرف ضروریات پورا کر دینا کافی نہیں ہوتا۔ یہ سب کر کے ہی ہم نوجوانوں کی ذہنی صحت برقرار رکھ سکتے ہیں۔
شعیب احمد، ایگزیکٹو ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف بیہوئیر سائنسز، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سینٹر میںشعبہ ذہنی صحت سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوجوان معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں، جو اس کی ترقّی و ترویج پر عملی اقدام کرتے ہیں، جس سے ان کا اپنا مستقبل بھی نتھی ہوتا ہے۔
نوجوان کسی بھی ملک کی معاشی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقّی میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی رائے کو اگر یکسر مسترد کر دیا جائے تو ان میں بغاوت کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اُن ہی کے بارے میں فیصلے کیے جائیں اور انہیں ہی فیصلوں میں شامل نہ کیا جائے تو پھر نوجوان بغاوت پر اُترجاتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے لیے صحیح راستہ متعین نہیں کر پاتا اور ایسے عوامل کا مرتکب ہو جاتا ہے جو معاشرے کے ساتھ اسے بھی تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں۔ جرائم مافیا تو ایسے نوجوانوں کی تاک میں رہتے ہیں ، وہ انہیں بآسانی جرائم کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔
ماضی پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک زمانہ تھا جب اسکولوں، کالجوں میں کھیل کے میدان ہوتے تھے، جہاں کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے۔ اس میں ہر طبقے کے بچّے شامل ہوتے تھے۔ ان کھیلوں کے ذریعے صبر و برداشت، حوصلے، مقابلہ کرنے کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں غیرنصابی سرگرمیاں جیسے بیت بازی، تقریری مقابلے، مضمون نویسی وغیرہ ہوا کرتے تھے۔کیوں ختم کردی گئیں یہ ساری چیزیں جس کے ذریعے وہ اپنا مدعا بیان کرتے تھے۔
کراچی میں بہت سی زمینیں جو کھیل کے میدانوں کے لیے مختص تھیں وہاں اپارٹمنٹ بن گئے ہیں۔ جب بچوں اور نوجوانوں کی انرجی کو استعمال ہی نہیں کریں گے تو ان میں منفی سوچ و افکار ہی پروان چڑھیں گی اور باغیانہ پن آئے گا۔ ایک اور چیز جو میرے مشاہدے میں آئی، وہ یہ کہ مدارس کے بچوں کے لیے کوئی غیرنصابی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ ان کی کوئی ٹیم نہیں بنائی جاتی، ان کو صوبائی اور ملکی سطح پر کھیلوں میں شریک نہیں کیا جاتا، جبکہ ایک کثیر تعداد ہمارے نوجوانوں کی مدرسوں میں زیرِ تعلیم ہے۔ان میں بھی معاشرے سے بغاوت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔
شعیب احمد کا مزید کہنا ہے کہ، نوجوان تو بہت باہمت ہوتے ہیں، گرم خون ہوتا ہےانہیں اتنی جلدی ہار نہیں ماننی چاہیے۔ اس بغاوت سے سراسر نقصان ان کا اپنا ہوگا۔ آج سے 30 سال پہلے اس پر سوچتے تو اپنے ملک کو بہتر بنا سکتے تھے۔ آج بھی ہم اگر اپنے مستقبل کے معماروں کی بہتری کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے والدین، تعلیمی ادارے، حکومت ،فلاحی ادارے، سب کو نوجوانوں کے مسائل کو سمجھنا اور حل کرنا چاہیے۔ جب ہی ملک کو ترقی کرے گا۔
پروفیسر سیّد ہارون احمد، پاکستان ایسوسی ایشن برائے ذہنی صحت کے صدر ہیںان کا کہنا ہے کہ، پاکستان دُنیا کے ان ممالک میںشامل ہے، جہاں کی 64 فیصد آبادی تین دہائیوں سے 29 سال سے کم یعنی (15-29) سال ہے۔ اس کے باوجود ہم ترقّی کی راہوں میں سب سے پیچھے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو وہ مواقع فراہم نہیں جو انہیں میسر ہونے چاہیں۔ تعلیم کا معیار روز بروز گرتا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا جب گھر اور اسکول کے ماحول میں بچوں کی شخصیت کی بہترین تشکیل ہوتی تھی۔ والدین کے ساتھ اُستاد کو عزت دی جاتی تھی،اب وہ ماحول نہیں رہا۔ غیرنصابی سرگرمیوں کا فقدان، بے روزگاری، مہنگائی، ضروریات زندگی کا فقدان، احساسِ محرومی کا شکار نوجوان غم و غصّے کا اظہار نہ کریں،باغی نہ ہوں تو کیا کریں۔
پچھلے 30سالوں میں الیکٹرانک میڈیا نے جس رفتار سے ترقّی کی ہے ہمارے نوجوان جذباتی اور نفسیاتی طور پر اس نئی دُنیا کو سمیٹ نہیں سکے لیکن اس کے استعمال سے دُنیا ان کی اُنگلیوں پر ہے، اس سے ان میں کم مائیگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کے اظہار کے طریقے محدود کر دیئے گئے ہیں تا کہ وہ کسی خواہش اور ضرورت کی طلب نہ کر سکیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا یونین ہوا کر تی تھیں وہ بھی زمانہ ہوا ختم کر دی گئیں، دوبارہ اسے بحال کرنے کے وعدے کے باوجود اب تک کوئی عملی اقدام نہیں ہو،ا ایسے میں وہ اپنے اندر کا غصّہ منفی انداز میں، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، نشہ، توڑ پھوڑ، خودکشی وغیرہ جیسے عوامل کر کے نکالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جس سے ملک کی ترقّی کی راہیں محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند نوجوان نظر نہیں آتے۔
ڈاکٹر ہارون نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں کسی کو رول ماڈل نہیں بننے دیا جاتا جس سے ہمارے نوجوان متاثر ہوتے اور ان کی پیروی کرتے۔ ہمارے ملک کا مستقبل ان ہی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے، اگر انہیں تعلیم، صحت، روزگار، اظہارِ خیال اور تجربات کا موقع نہیں دیا جائے گا تو مستقبل سنور نہیں سکتا۔ اس کا علاج منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر ہے، تا کہ نوجوان ذہنی اور نفسیاتی دبائو سے باہر نکلیں۔ سیکڑوں نوجوان مختلف وجوہات کی بنا پر تعلیم سے دُور ہیں۔ ان کے لیے مختلف راہیں استوار کی جائیں تا کہ تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے آسان ہو جائے۔
پروفیسر رعنا صبا سلطان، جامعہ کراچی میں شعبہ عمرانیات کی چیئرپرسن ہیں۔ ان کا جواب ہے کہ ایک ماہر عمرانیات ہونے کے ناطے میں سمجھتی ہوں کہ نوجوانوں کے باغی ہونے کے پیچھے کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ بے شمار وجوہ ہیں۔ سب سے پہلے تو خاندانی ماحول اگر والدین بچوںسے غفلت برتیں یا حد سے زیادہ محبت کریں تو اس سے بھی بچّے کو ہٹ دھرم اور ضدّی ہوجاتے ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ ماحول سے بے زار اور باغی ہونے لگتے ہیں۔ دُوسری چیز’’ اکیڈمک پریشر‘‘ ہے۔والدین کو بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو جانچے بنااُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اے گریڈ لائیں لیکن جب ن کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو والدین اُن پر طنز کرتے اور ایسا رویہ اپناتے ہیں جو بچوں کو باغی کر دیتے ہیں۔کچھ نوجوان اسی سبب خودکشی بھی کرلیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جب نوجوان پڑھ لکھ کر ڈگری ہاتھ میںلیتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں کئی خواب ہوتے ہیں۔ پہلا خواب تو اچھی ملازمت کا حصول ہوتا ہے، جس کے لیے وہ جگہ جگہ انٹرویو ددیتے ہیں، مگر جس کے پاس سفارش اور رشوت دینے کے لیے رقم نہ ہو تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں، جس کے باعث وہ فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں،ان کے اندر انتقام اور نفرت کا جذبہ جنم لیتا ہے اور وہ اپنے معاشرتی نظام سے باغی ہو جاتے ہیں۔ بغاوت کے پیش نظر وہ سب کچھ کر سکتے ہیں مثلاََ ہر ایک سے لڑائی جھگڑا ، دہشت گردی وغیرہ ایسا کر کے وہ معاشرے سے انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہی جرائم بڑھ رہے ہیں۔ اگر انہیں ان کے حقوق مل جائیں تو یہ مسائل جنم نہ لیں۔
مہناز رحمٰن، عورت فائونڈیشن کی ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے ہمارے سوال کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ نوجوانوں میں باغیانہ رُجحان کا بنیادی عنصر’’ جنریشن گیپ‘‘ ہے۔ یہ ہر دور اور ہر جگہ ہے۔ بزرگ، نوجوان سے شاکی اور نوجوان بغاوت پر آمادہ رہتے ہیں۔ یہ وہ ذہنی فاصلہ ہے ،جہاں دونوں ایک ہی چیز کو مختلف زاویۂ نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہر نئی نسل پچھلی نسل سے آگے ہوتی ہے۔ نظریات میں فیشن میں، تعلیم وغیرہ میں۔ہم بھی اپنے بزرگوں کے لحاظ سے مختلف تھے۔ ہماری بعض باتیں انہیں پسند نہیں تھیں، پھر ہم سے جو اگلی نسلیں آئیں تو ان کی بہت سی باتیں ہم پسند نہیں کرتے۔ معاشرے میں جو ہمہ گیر تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں ہمیں ان سے جُڑ کر دیکھنا چاہیے۔ حد سے زیادہ نکتہ چینی اور تنقید بھی نوجوانوں کو متنفّر کر دیتی ہے۔ والدین ہر حال میں اپنی اولاد کو ایک مثالی اور مکمل شخصیت بنانا چاہتے ہیں۔
ان کی پسند نا پسند جانے بغیر اپنی پسند کو اہمیت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مہنازالرحمٰن نے مزید کہا کہ معاشرے میں مادیّت پرستی بہت بڑھ گئی ے۔ یہ ایک عام خیال بن گیا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے، اسی نہج پر جب بچّے بڑے ہوتے ہیں تو اُن کے اپنے نظریات نہیں ہوتے، ان کے نزدیک جلد از جلد امیر بننے کا خبط سوار ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر جائز ناجائز کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دُنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ نوجوان ہر وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر اپنا وقت صرف کر رہے ہیں۔مختلف ویب سائٹس بنانے کا مقصد دُنیا بھر کے افراد کو آپس میں جوڑ کرعالمی اَمن کو فروغ دینا ہے، مگر نوجوان نسل نے اسے خوابی دُنیا تصوّر کیا ،جس سےاُن میں نفسیاتی و ذہنی عوارض بڑھ گئے ہیں۔
پہلے اُستاد تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کرتے تھے اور کھل کر بولتے تھے۔ ہم سُنتے بھی تھے اور احترام کے ساتھ اختلاف بھی کرتے تھے۔ آج کل شدّت پسندی اتنی بڑھتی جا رہی ہے کہ کوئی کسی کی بات سُننے کو تیار ہی نہیں۔ ہمارے طالب علموں میں بھی اختلاف رائے کے حوالے سے عدم برداشت بے انتہا بڑھ گیا ہے۔جب تک معاشرتی انحطاط رہے گا ، باغیانہ رویّہ بھی سامنے آتا رہے گا۔ اس کے لیے مشترکہ طور پر سماجی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی لحاظ سے ازسرِ نو اصلاح کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہم نوجوانوں کے احساسات و جذبات کو مثبت سوچ دے سکیں گے۔
پروفیسر محمد رئوف، مقامی کالج کے پرنسپل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے باغی ہونے کی وجوہ میں بنیادی وجہ ’’عدم مساوات‘‘ کا نظام قراردیاہے۔ یہ خواہ مالی امور میں ہوںیا سماجی مسائل یا قانون پر عمل درآمد یا بدانتظامی کے باعث۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر بدانتظامی سرِفہرست ہے۔ آج تک کوئی انتظامی افسر بدانتظامی پر برطرف نہیں ہوا۔ ایسی صورت حال میں پیدا ہونے والی نسل غیریقینی کا شکار ہے، کیوں کہ وہ بدانتظامی، عدم مساوات اور نااہلی کا عملی نمونہ دیکھتے ہوئے پروان چڑھی ہے۔
یہ نسل دیکھ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں قوانین کی کوئی پاس داری نہیں جو جی میں آئے کرتے پھریں، ایسے میں نوجوان بھی قوانین کی پاس داری نہیںکرتے ۔ جب وزارتِ تعلیم کالج کی عمارت قائم کر کے اس میں فرنیچر، لیبارٹری کا سامان، اساتذہ اور دیگر عملے کا تقرر کرنا بُھول جائے اور افسران مرکزی داخلہ پالیسی کے تحت سیکڑوں طلبہ کو داخلہ لینے پر مجبور کر دیں تو نوجوان اس نظام سے باغی کیوں کر نہ ہوں گے۔ حکومتی ادارے اگر نوجوانوں کی اصلاح چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان میں بغاوت کے جذبات جنم نہ لیں تو سب سے پہلے انتظامی ڈھانچہ دُرست کرنا ہوگا اور ایک ایسا نظام بنانا ہوگا، جس میں بروقت انصاف مہیا ہو سکے۔ قوانین پر عمل درآمد ہو ورنہ بصورت دیگر ہم نئی نسل کو قوانین سے آزاد کر دیں گے،انہیں معزز شہری نہیں بنا سکیں گے اور انہیں بغاوت سے نہیں روک سکیں گے۔
ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن، کا تعلق شعبہ طبّ سے ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں میں باغی ہونے کی ایک اہم وجہ ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ وہ ہے’’ دین سے دُوری‘‘، خیر آج کل تو والدین بھی دین سے دُور ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچّوں کی صحیح تربیت نہیں کر پاتے۔ اُن کی دُنیاوی تعلیم کے حصول پر تو بہت زور اور توجہ دیتے ہیں لیکن دِینی تعلیم پر اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی دینی چاہیے۔
گزرے زمانے میں والدین دینی تعلیمات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اس کی فکر کرتے تھے۔ بچّوں کو پنج وقتہ نماز کی پابندی کرواتے تھے لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے جب بڑوں میں ایمان تقویٰ، صبر و قناعت نہیں تو پھر نسلِ نو میں کیسے آئے گا۔ ان میں انتشار اور بے راہ روی تو لازمی پھیلے گی۔ اگر آج ہم اپنے دین سے تعلق مضبوط کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آج کا نوجوان باغی ہو جائے۔ وہ اپنے رَبّ سے ہر معاملے میں راضی ہو جائے گا۔
خالدہ سمیع ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کا نوجوان کئی وجوہ کی وجہ سے باغی ہیں، جن میںایک وجہ سنگل پیرینٹس (Single Parent) ہے۔ ماں، باپ کے درمیان علیحدگی ہو جائے، بچوں کوکسی ایک کے ساتھ رہنا پڑے تو ان کے جذبات متاثر ہوتے ہیں۔ احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے وہ معاشرے میں اپنے آپ کو مِس فٹ سمجھتے ہیں بعض دفعہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ماں قصوروار ہے۔ کچھ رشتے دار اور کچھ ہمارے زمانے کی ریت و روایت کہ ہمیشہ عورت کوہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
اس طرح کی باتیں جب ان کے کانوں میں پڑتی ہیں تو ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا بچّہ خود بخود باغی ہو جاتا ہے کبھی باپ اُس کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو کبھی ماں، وہ اپنی ضد میں بچّوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے۔ ایسے میں اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔اپنے آپ کو نامکمل سمجھنے لگتا ہے۔ نہ وہ اپنی ماں سے پُرخلوص ہو پاتا ہے نہ باپ سے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات منفی رویئے بھی نوجوانوں کو باغی بنا دیتے ہیں۔ کسی ایک بچّے کو فوقیت دینا اور دُوسرے کو نہیں، اس سے ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور وہ اپنے اردگرد رہنے والوں سے نفرت کرنے لگتےہیں۔
والدین اپنے بچّوں پر توجہ دیں انہیں بکھرنے نہ دیں۔تو ان میں بغاوت کاعنصر سر نہ اُٹھائے گا ۔ نظامِ تعلیم نے بھی نوجوانوں کو باغی بنا دیا ہے۔ کہیں ہائی اسٹینڈرڈ ایجوکیشن اے، او لیولز اور کہیں گورنمنٹ اسکول، کالج کی خستہ حال عمارتوں میں پڑھنے والے بچّے، یکساں نظامِ تعلیم ہو جائے تو کم از کم نوجوانوں میں کمتری، برتری کے احساسات تو ختم ہوسکیں گے۔
نگہت کامران درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ان کے نزدیک ہر پچھلی نسل کو موجودہ نسل بے راہ روی کا شکار یا باغی لگتی ہے۔ یہ دراصل کمیونی کیشن ہے۔ یہ نئے اور جدید دور کی نوجوان نسل ہے، انہیں کچھ نہ کہو کی بنا پر وہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ 1980ء کے عشرے میں جب ہمارا شمار نئی نسل میں ہوتا تھا تو اس دور کے بزرگوں کا خیال تھا کہ نوجوان نسل معاشرتی اقدار سے لاتعلق ہے۔ یہ مذہب سے بے گانہ ہے۔آج بھی نوجوان نسل سے پرانی نسل کی شکایات بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔ بزرگوں کا وہی رونا ہے کہ بچّے ہماری نہیں سُنتے۔
ہر وقت موبائل پر لگے رہتے ہیں ۔ ذاتی طور پر میں گزشتہ نسل سے تعلق رکھنے کے باوجود اس بات کو قطعی غیرمنصفانہ سمجھتی ہوں کہ نوجوان نسل پر بغاوت کا سنگین الزام لگایا جائے۔ آج کا نوجوان تو گزشتہ نسل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذہین اور تعلیم یافتہ ہیں۔ آج کے دور میں نوجوان نسل کے لیے چیلنجز زیادہ ہیں جو بچّے ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ سخت مقابلے کے بعد حاصل کرتے ہیں۔ دراصل نوجوان باغی نہیں ہوتے بلکہ سسٹم کی خرابیوں، ناانصافیوں سے اُکتا کر اُن میں باغیانہ رویئے جنم لیتے ہیں۔
اس لئے میں یہ نہیں کہوں گی کہ سارے نوجوان باغی ہو جاتے ہیں۔ بہت سے باہمت ہیں جو نامساعد حالات کا مقابلہ دلیری سے کر رہے ہیں اور ان کے عزائم بُلند ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج کل نوجوان نسل کو جس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے اس کا تصوّر پچھلے وقتوں کے لوگ نہیں کر سکتے۔ آج کی نوجوان نسل ماضی کے مقابلے میں بے حد باشعور اور وقت کی حقیقتوں کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ مجھے میرے بچّوں نے مایوس نہیں کیا۔ میرے نوجوان بچّے اپنی زندگی کے اہداف کی طرف دُرست سمت میں گامزن ہیں۔