3جنوری کو بلوچستان کے علاقہ مچھ میں ہزارہ برادری کے 10بے گناہ کان کنوں کا سفاکانہ قتل اور اس کے نتیجے میں منفی درجہ حرارت میں بچوں، عورتوں اور مردوں پر مشتمل لواحقین کا کوئٹہ میں اپنے پیاروں کے لاشے لیکر دھرنے کو اس مطالبے پر چھ روز گزر گئے کہ وزیر اعظم خود ان کے پاس آئیں جبکہ جمعرات کے روز اپوزیشن کی مرکزی قیادت تعزیت اور یک جہتی کے اظہار کے لئے کوئٹہ پہنچ گئی بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کا بھی وہاں پہنچنا ایک اصولی بات ہے لیکن سردست اس بات کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ وہ کب جائیں گے البتہ امکان غالب ہے کہ یہ ذمہ داری کسی بھی وقت پوری کریں گے لیکن دوسری طرف دھرنے سے پیدا شدہ صورتحال پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ جمعرات کے روز اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقع پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے سانحہ کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اجلاس میں حکومتی قواعد کے مطابق متاثرین کی مالی امداد کا فیصلہ کیا گیا اور وزیراعظم نے ہدایات جاری کیں کہ وزارت داخلہ مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کو یقینی بنائے۔ انہوں نے ہزارہ برادری کے تحفظ کے لئے خصوصی سکیورٹی نظام بنانے پر زور دیا۔ بجا طور پر یہ اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں۔ حکومتی و اپوزیشن قیادتوں نے واقعہ کی مذمت اور لواحقین سے تعزیت بھی کی ساتھ ہی حکومت کی طرف سے ملزمان کو عبرتناک سزا دینے او ر کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم بھی ظاہر کیاگیا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے سیاسی اختلافات بھلا کر لواحقین کی مشترکہ طور پر داد رسی پر زور دیا تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے ہزارہ برادری کے قتل عام کے اس سے پہلے 2002سے اب تک مجموعی طور پر 80 واقعات ہوچکے ہیں جن میں 1600بے گناہ افراددہشت گردوں کی سفاکیت کا نشانہ بنے۔ 6دن سے جاری اس دھرنے کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ یہ لواحقین نہیں بلکہ دس بے گناہ لاشوں کا دھرنا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ واقعہ ہزارہ برادری کی نسل کشی کا تسلسل ہے تاہم ملک دشمن عناصر کے اس حوالے سے مزید عزائم بھی ظاہر ہوئے ہیں جس میں بلوچستان میں افراتفری پھیلانا اور اس کی آڑ میں سی پیک منصوبہ کو سبوتاژ کرنا بھی شامل ہے، فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستانی قوم ان تمام باتوں کا شعور رکھتی اور دشمن کے ایسے ناپاک ارادوں سے باخبر ہے۔ ادھر افغان سفارتخانے نے وزارت خارجہ کو مراسلہ لکھا ہے کہ پاکستان سانحہ مچھ میں جاں بحق ہونے والے اس کے سات شہریوں کی لاشیں افغانستان منتقل کرنے میں معاونت کرے۔ مراسلے کے مطابق ایک افغان کانکن جو اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں زیر حراست ہے، افغان سفارتخانے کو اس شخص تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم حکومت بلوچستان نے اس ضمن میں کہا ہے کہ مراسلے پر قانونی طریقہ کے مطابق کام کیا جائےگا۔ کوئٹہ میں 6روز سے جاری دھرنے کے تناظر میں مختلف شہروں میں لواحقین سے یک جہتی کے لئے کیمپ لگائے جا رہے ہیں۔ اگرچہ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئےکہا ہے کہ حکومت ہزارہ برادری کی سکیورٹی کے لئے میکنزم بنائے گی اوراس سانحہ عظیم کی روشنی میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان لواحقین سے یک جہتی کے لئے کوئٹہ جائیں گےتاہم اس ضمن میں اصل معاملہ آئندہ کے لئے ہزارہ برادری کو سکیورٹی کی ضمانت فراہم کرنے اور ایک لائحہ عمل دینے کا ہے جس کے لئے یقیناً سکیورٹی ادارے متحرک ہیں اور وہ سانحہ مچھ کے ملزمان کو بلاتاخیر کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے پرعزم ہیں لیکن یہ بھی خیال رہےکہ شہدا کی لاشیں لیکر خواتین اور بچوں کا منفی درجہ حرارت میں مزید بیٹھنا ان کی حالت غیر ہونے یا کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کا باعث بن سکتا ہے۔