• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیرا دِل تو ہے صنم آشنا خصوصی تحریر…ڈاکٹرصغرا صدف

تیرا دِل تو ہے صنم آشنا خصوصی تحریر…ڈاکٹرصغرا صدف
صوفی ہمیشہ ایسے واعظوں سے خفا رہتا ہے جو دکھاوے کی ریاضتوں کے ذریعے عام لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ خدا اور خلقِ خدا سے محبت کی بجائے خوف کی فضا تخلیق کر کے مفادات کے حصول کو ممکن بناتا ہے۔ صوفی کے نزدیک یہ عمل خالق سے بے وفائی کے مترادف ہے کیونکہ خالق کو شرک سے پاک محبت پسند ہے۔ فرشتوں کی موجودگی میں انسان کی تخلیق عبادت کی بجائے عشق کی متقاضی ہے صوفیاء نے دنیاوی توقیر، فکرِ آخرت اور مال و دولت کی ہوس میں جکڑے ظاہر پرستوں کی عبادت کو بلا وجہ کی دوڑ دھوپ سے ماخوذ کیا ہے میاں محمد بخش کہتے ہیں
جے لکھ زہد عبادت کریئے بِن عشقوں کس کاری
جاں جاں عشق نہ ساڑے تینوں تاں تاں نبھے نہ یاری
شاہ حسین ظاہر کی پاکی اور دل کی آلودگی کی طرف یوں نشاندہی کرتے ہیں
باہر پاک اندر آلودہ، کہیا توں شیخ کہاویں
کہے حسین جے فارغ تھیویں، خاص مراتبہ پاویں
اندر اور باہر، ظاہر اور باطن، جسم اور روح، دل اور دماغ کا الگ الگ راستوں پر چلنا اور الگ الگ منشور پر عمل کرنا ہی اصل خرابی ہے۔ کائنات کا مقصد وحدت میں ہے۔ اس لئے صوفی ’’میں‘‘ کو فنا کرتے ہوئے وحدت کے دریا کا حصہ بننے پر زور دیتا ہے۔ ذات کی نفی عمل سے عبارت ہے۔ ایسا عمل جو ظاہر اور باطن کی دوری مٹا کر انسان کی شخصیت کو ایک کردے۔ ظاہری عالموں کے لباس اور حُلئے کو دیکھ کر بابا فرید کہہ اٹھتے ہیں۔
فریدا کنھ مصلّا، صوف گل، دل کاتی، گُڑوات
باہر دِسّے چاننا، دل اندھیاری رات
ظاہر اُجلا اور باطن تاریک ہو تو انسان پر نہ اپنی حقیقت کھلتی ہے، نہ کائنات کی اور نہ ہی خالق کائنات کی۔ مشعل اٹھانے والا اور ظاہری عالم ایک ہی ڈگر کے مسافر ہیں۔ وہ دوسروں کو روشنی دکھاتے ہیں مگر خود اندھیرے میں رہتے ہیں بقول بابا بُلھے شاہ
ملاں تے مشالچی دوہاں اکّو چت
لوکاں کردے چانناں، آپ انیرے نت
یہ قول و فعل کا وہ تضاد ہے جو دوسروں کو نصیحت کرنے اور خود عمل نہ کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔ قول و فعل میں متضاد رویے رکھنے والوں نے افکار کو خانقاہوں، مندروں اور گردواروں میں قید کر کے انسان کی فکری آزادی، برداشت، رواداری اور آفاقی اقدار کو مصلوب کر رکھا ہے۔
سلطان باہو علم والوں کو تکبر اور کتابوں کی نمائش کرنے والوں کو عشق کے رتبے سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
اک نگاہ جے عاشق ویکھے لکھ ہزاراں تارے ہو
لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے نہ کدھی چاہڑھے ہو
سچل سرمست اسی لئے ظاہری زہد و تقویٰ کی بجائے عشق کی ایسی کیفیت کے طلبگار ہیں جو محبوب سے وصل کی امین ہے۔ انسان کا دِل ازل سے اس سچے جذبے کا طلبگار ہے۔
میں طالب زہد نہ تقویٰ دا، ہک منگاں محبت مستی
دتی ہن استاد ازل دے، ہتھ طلب دی تختی
اِسی طرح غالب بھی وفاداری، محبت اور محبت پر قائم رہنے کو اصل ایمان سمجھتا ہے۔
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مَرے بت خانہ میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
دنیا کے کسی گوشے میں رہنے والے صاحبِ دانش کی تحریر پڑھئے وہ ظاہر پرستی سے نا پسندیدگی کا اظہار کرے گا۔ اس لئے کہ ہر شے کا باطن ہی سب کچھ ہے۔ جس طرح انسان کے ظاہری وجود کے اندر باطنی احساس، جان اور روح ہے۔ جس طرح چھلکے کے اندر پَھل ہے۔ عمارت کے ظاہری حُسن کے ساتھ ساتھ اندر کی حالت زیادہ اہم ہے۔ اسی طرح عقائد کی روح کو نہ پہچانا جائے تو وہ بے معنی رہتے ہیں مولانا روم کے مطابق
در نماز و روزہ و حج و زکات
با منافق مومناں در بُرد و مات
مومناں را بُرد باشد عاقبت
بر منافق مات اندر آخرت
حاصلِ بحث یہ کہ ایمان اور عقائد عشق کے بغیر نا مکمل ہیں۔ صرف عبادات اور ذکر و اذکار سے خدا کی خوشنودی حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی مسلمان ہونا باعث فضیلت ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا قول ہے۔ ’’محبت کا ایک ذرّہ تمام جنوں اور انسانوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے‘‘ سوانسان کو جس جذبے پر ناز کرنا چاہیے تھا اُس پر زمانے نے پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ عشق کی بھٹی میں تن من کا کھوٹ جلا کر دل کو شفاف آئینہ بنایا جاسکتا ہے۔ عشق ہو تو انسان کا انگ انگ خدا کا ذکر کرتا ہے۔ وہ ہر لمحہ حالتِ سر شاری میں رہتا ہے کیونکہ زبان کا ذکر روح کی گہرائی سے ہو کر ادا ہوتا ہے دل آواز بن جائے تو پُکار میں تاثیر آ جاتی ہے جبکہ عشق سے عاری عبادت انسان کے پتھر وجود میں کوئی دیا جلانے سے قاصر رہتی ہے۔ اسی لئے اقبال فرشتوں کی عبادت کو تن آسانی قرار دے کر انسان کے جذبۂ عشق کی تحسین کرتا ہے
نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ
کائنات کی ہر شے خالق کی محبت میں گرفتار ہے۔ انسان کی ریاکاری کو پرندے، درخت اور زمین سب مظاہر فطرت محسوس کرتے اور اس پر ردّعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے ظاہر پرست جب اپنے محبوب حقیقی کے سامنے سربسجدہ ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے تو زمین اس کے دِل کا عکس اسے دکھاتی ہے۔ وہ دِل جس پر دنیاوی حرص و ہوس کے اصنام کا غلبہ ہے۔ صنم سے مراد مجازی محبوب نہیں کیونکہ وحدت الوجودی صوفیوں کے مطابق انسان سے محبت مجازی محبوب سے محبت حقیقی ہے محبت کی طرف پیش قدمی ہے۔ آئیے ظاہری آئینے میں اپنا عکس دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے دِل کے آئینے میں جھانک کر ایک ایسی زندگی کا آغاز کریں۔
تازہ ترین