• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان گذشتہ روز سانحہ مچھ کے مقتولین کی تدفین کے بعد ان کے پسماندگان اور ہزارہ برادری کے نمائندوں سے اظہار یکجہتی و ہمدردی کی خاطر کوئٹہ پہنچے تو ڈیجیٹل میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں ملک کی موجودہ صورت حال پر تفصیلی اظہار خیال بھی کیا۔اپوزیشن کی جانب سے فوجی قیادت پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی شکایات پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے متنبہ کیا کہ فوج مخالف بیانات دینے والے تمام لوگوں کا علاج ہوگا۔ان کا موقف تھا کہ اپوزیشن رہنما اپنی لوٹ مار اور کرپشن چھپانے کے لیے ریاستی اداروں پر دباؤ بڑھارہے ہیں اور آرمی چیف سے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وزیر اعظم کو اس سنگین الزام کے ٹھوس ثبوت لازماً قوم کے سامنے لانے چاہئیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے۔تاہم جہاں تک فوجی قیادت کی سیاسی معاملات میں مداخلت کا تعلق ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو آج ہی کہی جارہی ہو۔ وزیر اعظم ماضی میں خود ببانگ دہل یہ شکایت کرتے رہے ہیں اور اس ملک کی پوری سیاسی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ ماضی میں فوجی قیادتوں کے ہاتھوں منتخب حکومتوں کا بار ہا تختہ الٹا جانا یا ان پر دباؤ قائم رکھاجانا اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوناکھلے راز ہیں ۔ خود کئی فوجی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تحریروں اور بیانات میں اس حوالے سے اہم حقائق سامنے لاچکے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری ادوار میں خود سیاستداں اپنی مخالف جماعتوں کی منتخب حکومتوں کو گرانے کے لیے فوجی قیادتوں کو اکساتے رہے ہیں۔ سابقہ دور میں 126 دن کے تاریخی دھرنے میں حکومت اور اسمبلیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی اگر فوجی قیادت سے نہیں تو پھر کس سے کیا جارہا تھا۔ لہٰذا یہ معاملہ محض زبانی محاذ آرائی کا نہیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کا طالب ہے تاکہ اسے مستقل طور پر حل کیا جاسکے اور ملک میں آئین اورقانون کی حقیقی بالادستی قائم ہوسکے ۔ انٹرویو میںوزیر اعظم نے حسب معمول اپنے سیاسی مخالفین کو جو اَب گیارہ جماعتی اتحاد کی شکل میں یکجا ہیں‘ چوروں لٹیروں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ قرار دیا۔لیکن یہ بات بھی اتنی سادہ نہیں۔ موجودہ حکمراں جماعت کی طرح ملک کے کروڑوں رائے دہندگان کے اعتماد کی حامل اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں قائم موجودہ حکومت میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ماضی میں ان ہی جماعتوں سے وابستہ ، ان کی حکومتوں میں شامل اور اقتدار کے اہم مناصب پر فائز رہے ہیں۔ کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات موجودہ حکومت کے متعدد وابستگان پر بھی ہیں ۔ خود وزیر اعظم کی پارٹی کو فارن فنڈنگ کیس جیسے مقدمات کا سامنا ہے جن کی تکمیل کو بظاہر کسی معقول وجہ کے بغیر مؤخر کیا جارہا ہے۔ لہٰذا احتسابی عمل غیرجانبدارانہ اور بلا امتیاز نہیں رہا بلکہ سیاسی مخالفین کو کچلنے کا حربہ بن گیا ہے جبکہ موجودہ حکومت معیشت سمیت کسی بھی شعبے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے خصوصاً مہنگائی کے عفریت نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے موقف عوام کے سامنے ہیں اور وہ اس پر اپنا فیصلہ کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔اپوزیشن کی حکومت مخالف مہم کو عوام میں جو پذیرائی مل رہی ہے اس کی وجہ اس کے موقف کا قبول کیا جانا ہے۔ لہٰذاوزیر اعظم اپوزیشن کو محض چوروں لٹیروں کا ٹولہ کہہ کر لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی حکومت کامیاب کارکردگی کا مظاہرہ کرے لیکن ڈھائی سال میں وہ اب تک اپنی ٹیم میں تبدیلیاں ہی کرتے چلے آرہے ہیں اورتازہ انٹرویو میں انہوں نے پھر کہا ہے کہ جس وزیر کی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی اسے تبدیل کردیا جائے گا۔ تاہم اقتدار کی نصف مدت گزر جانے کے بعد عوام اب وزیروں کی تبدیلی نہیں بلکہ اپنے مسائل کے حل کیلئے ٹھوس کارکردگی کے خواہاں ہیں۔

تازہ ترین