• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ٹی وی چینل پر ایک خاتون نے کسی معاملے پر مذاکرات کرنے والے دو مختلف گروہوں کے بارے میں خبردی کہ ’’دونوں فریقین ‘‘ مسئلے کے ایک حل پر متفق ہوگئے ہیں۔لیکن یہاں’’ دونوں ‘‘کا لفظ قطعی غیر ضروری ہے اور صرف فریقین کہناکافی ہے کیونکہ فریقین کا مفہوم ہی ’’دو فریق ‘‘ ہے ۔ فریقین کے لفظ میں ’’دو ‘‘ کا مفہوم موجود ہے اور اسی لیے ’’دونوں‘‘کا لفظ یہاں اضافی ہے۔

دراصل عربی میں جمع بنانے کا ایک طریقہ تثنیہ بھی ہے یعنی ایسی جمع جو دو چیزوں کو ظاہر کرے ۔ جو اسم دو کے عدد کو ظاہر کرے اسے مُثَنّیٰ(مُثَن ۔نیٰ) کہتے ہیں(مثنیٰ کے اور معنی بھی ہیں مثلاً ہوبہو نقل یا ڈُپلیکیٹ)۔جب دو چیزوں یا دو افراد کا ذکر کرنا ہو یعنی کسی لفظ کی جمع اس طرح بنانی ہو کہ صرف دو (۲)کی تعداد ظاہر ہو تو اس کے لیے مثنیٰ لایا جاتا ہے اور اس میں بھی لفظ کی قواعدی حالت کا لحاظ کرتے ہوئے جمع بنتی ہے۔

ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ (عربی کے لحاظ سے لفظ اگر نصبی یا جری حالت میں ہے تو )لفظ کے آگے ’’ین ‘‘ کا اضافہ کردیتے ہیں اور ’’ی ‘‘ سے قبل والے حرف پر زبر لگ جاتا ہے(اسے ماقبل مفتوح کہتے ہیں ) ۔ مثلاً فریق سے فریقَین (یعنی دو فریق)، جانب سے جانبَین (دو جانبیں) ، طرف سے طرفَین (دو طرفیں )،حرم سے حرمَین (دو حرم ، یعنی مکی حرم اور مدنی حرم )، واوَین ،یعنی دو ’’واو‘‘ ، یعنی جسے انگریزی میں انورٹڈ کاماز (inverted commas)کہا جاتا ہے اس کا نام اردو میں واوَین ہے اور اسی طرح قوسَین یعنی دو قوسیں اور یہ انگریزی کے لفظ بریکٹ کا اردو ترجمہ ہے کیونکہ بریکٹ میں ایک قوس دائیں طرف اور دوسری قوس بائیں طرف بنتی ہے۔

مقصود یہ کہنا ہے کہ لفظ ’’فریقین ‘‘کے ساتھ دو یا دونوں کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، اس میں دو کا مفہوم موجود ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ مثلاً دونو ں فریق اس حل پر متفق ہوگئے ۔یا اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ فریقین اس حل پر متفق ہوگئے۔ اسم مثنیٰ دو ہی کو ظاہر کرتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ دو لکھنا یا بولنا غیر ضروری ہے۔ مثال کے طور پر’’ حرمَین ‘‘بولا جاتا ہے اور’’ دونوں حرمَین ‘‘کوئی نہیں بولتا لیکن نجانے کیوں ’’فریقین ‘‘کا لفظ آتے ہی ’’دو ‘‘ کا غیر ضروری اضافہ کردیا جاتا ہے۔

تازہ ترین