• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین خاموش تو قانون کا اطلاق، بتایا جائے قانون میں سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ کہاں لکھا ہے، کیا ہماری تشریح پارلیمنٹ سے بالا ہوگی، سپریم کورٹ

کیا ہماری تشریح پارلیمنٹ سے بالا ہوگی، سپریم کورٹ


اسلام آباد (نیوز ایجنسیز)سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ / شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت پیر 18 جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔

جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس مشیر عالم، جسٹس یحی خان آفریدی اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ 

دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جہاں آئین خاموش ہوگا وہاں قانون کا اطلاق ہوگا،بتایا جائے سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ کار قانون میں کہاں لکھا ہے؟ کیا ہماری تشریح پارلیمنٹ سے بالا ہوگی۔ 

سپریم کورٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی اور عدلیہ اسکی تشریح کرتی ہے، عدالت کی تشریح کے تو سب پابند ہوں گے۔ خفیہ اور اوپن بیلٹ میں کیا فرق ہے۔ بھارت نے سینیٹ انتخابات اوپن کرکے اسکا مکمل طریقہ کار وضح کیا۔ 

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ،عدالت خود کہہ چکی ہے کہ اسے تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہے، حکومت نے رائے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اگر آئین میں تشریح درکار ہو تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

حکومت کا مقدمہ یہ ہے کہ آرٹیکل 226 کی تشریح کی جائے، آئین کی تشریح کا فورم پارلیمنٹ نہیں بلکہ سپریم کورٹ ہے، اوپن بیلٹ کے لئے آرٹیکل 226 میں ترمیم ضروری ہے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کس طرح آرٹیکل 226 کی تشریح کرتی ہے۔

سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں خود قرار دیا کہ آئین کی تشریح کا اختیار عدالت کو حاصل ہے،یہی میرے دلائل کا نچوڑ ہے، 23 سال پہلے سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ سیاسی اور غیر سیاسی سوالات کے درمیان تفریق کیے بغیر فیصلے کیے جائیں، ہر ملک میں آئینی معاملات کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ یا پھر آئینی عدالت ہوتی ہے۔ 

ہماری سپریم کورٹ ہی آئینی عدالت ہے، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا اور امریکہ سمیت متعدد ممالک میں سپریم کورٹ آئینی و سیاسی معاملات میں آئین کی تشریح کرتی ہے، اگر آئینی معاملات پر سیاسی معاملات غالب آجائیں تب عدالت ان معاملات سے گریز کرتی ہے۔

متعدد مرتبہ سپریم کورٹ سیاسی معاملات کی بھی تشریح کر چکی ہے، سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا تھا، عدالت نے صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دیا تھا، سابق وزیراعظم نواز شریف کیس میں عدالت نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے پاس تین مختلف طرح کے اختیارات ہیں، عدالت دو حکومتوں کے درمیان تنازعات پر فیصلہ کر سکتی ہے، عدالت کا دوسرا اختیار 184/3 کا ہے، سپریم کورٹ ہائیکورٹس کے خلاف اپیلیں بھی سنتی ہے، سپریم کورٹ صدر کے ریفرنس پر مشورہ اور گائیڈ لائن بھی دے سکتی ہے، سپریم کورٹ اپیلٹ فورم کے ساتھ آئینی عدالت بھی ہے۔

ہماری سپریم کورٹ اکثر سیاسی معاملات واپس پارلیمنٹ کو بھجتی رہی ہے، اگرچہ آئین نے سپریم کورٹ کو اختیار دیا ہے لیکن پھر بھی عدالت نے معاملات واپس بھیجے، عدالت خود کہہ چکی ہے کہ اسے تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہے، اگرچہ عدالت بہت سے معاملات پارلیمنٹ کو بھیج چکی ہے لیکن عدالت اپنی نظائر کی پابند ہے۔

9 رکنی بنچ مختلف معاملات میں دائرہ اختیار سے متعلق فیصلہ دے چکا ہے، اب اس پانچ رکنی بنچ میں صدارتی ریفرنس آیا ہے تو اس کا جواب اب آپ کو دینا ہے، سپریم کورٹ کے جج صاحبان آئین کے تحت حلف لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود آئین کی تشریح بھی کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار اسی آئین نے دیا ہے، عدلیہ کو سیاسی پہلوؤں کے حامل مقدمات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے، سپریم کورٹ حسبہ بل کیس میں آرٹیکل 186 کی تشریح کر چکی ہے۔

ہٹلر بھی ایک جمہوری شخص اور منتخب نمائندہ تھا، اگر مستقبل میں کوئی کھڑا ہو کر یہ کہے کہ میں خلیفہ ہوں اور یہ ملک خلافت ہے تو سپریم کورٹ اس کی بالکل اجازت نہیں دے گی۔

آئین میں سینیٹ کی کمپوزیشن کا بتایا گیا ہے، قومی اسمبلی کے انتخابات براہ راست ہوتے ہیں، سینیٹ کے انتخابات ڈائریکٹ نہیں بلکہ ان ڈائریکٹ ہوتے ہیں، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سینیٹ کے اراکین کا انتخاب ہوتا ہے، الیکشن ایکٹ 2017 میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں اور قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا طریقہ کار موجود ہے، الیکشن ایکٹ 2017 کے باب 7 میں سینیٹ کا مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے۔

سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت نہیں بلکہ قانون کے تحت ہوتے ہیں،اسی لئے حکومت سپریم کورٹ آئی ہے کہ عدالت سے رائے لے سکے، دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ خفیہ اور اوپن بیلٹ میں کیا فرق ہے۔ 

جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ اور اوپن بیلٹ دونوں کا طریقہ کار ایک ہی ہے، اوپن بیلٹ میں بھی ووٹرز پہلے کی طرح ہی ووٹ دیں گے، اوپن بیلٹ میں صرف بیلیٹ پیپر کے پیچھے ووٹ ڈالنے والے کا نام لکھا ہوگا، اس کا مقصد یہ ہے کہ معلوم کیا جا سکے کہ کس رکن اسمبلی نے کس امیدوار کو ووٹ دیا۔ 

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ عام انتخابات کتنے مراحل پر مشتمل ہوتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں حلقہ بندی، ووٹر لسٹیں اور ریٹرننگ افسران کی تعیناتی ہوتی ہے، دوسرے مرحلے میں انتخابی عملہ تعینات اور الیکشن شیڈول جاری ہوتا ہے۔

الیکشن قومی اسمبلی کا بھی ایک دن ہوتا ہے لیکن انتخابی عمل بہت طویل ہے، سینیٹ الیکشن میں بھی پہلے ریٹرننگ اور پریزائڈنگ افسران تعینات ہوتے ہیں۔ دوران سماعت جسٹس یحی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے بعد کوئی اپیلٹ فورم موجود نہیں ہے، عدالت کو انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ 

دوران سماعت جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ اگر انٹرا پارٹی یا سیاسی پارٹیوں کے آپس کے معاملات ہوں تو عدالت ان میں نہیں پڑتی، لیکن ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار کے تحت عدالت سیاسی معاملات کا جائزہ لیتی رہی ہے۔ 

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے سپریم کورٹ تشریح کرتی ہے، اگر عدالت تشریح کرتی ہے تو پھر کیا عدالتی تشریح کو فوقیت حاصل ہوگی؟ 

جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ عدالت خود کہہ چکی ہے کہ اسے تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہے، اگرچہ عدالت بہت سے معاملات پارلیمنٹ کو بھیج چکی ہے لیکن عدالت اپنی نظائر کی پابند ہے۔

آئین نے سینیٹ کی کمپوزیشن بتائی ہے جبکہ طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں دیا گیا ہے، آئین میں سینیٹ کی مناسب نمائندگی کا ذکر ہے، سینیٹ کا الیکشن کیسے ہونا ہے وہ قانون میں موجود ہے، آئین کے تحت ہونے والے انتخابات کا دورانیہ چند گھنٹے ہوتا ہے، صدر کے الیکشن کا پورا طریقہ کار آئین میں درج ہے جبکہ سینیٹ کا نہیں۔ 

قومی اسمبلی کا الیکشن بھی ایک دن میں ہوتا ہے لیکن انتحابی عمل بہت طویل ہے، سینیٹ الیکشن میں بھی پہلے ریٹرننگ اور پریزائڈنگ افسران تعینات ہوتے ہیں، الیکشن ایکٹ 2017 کے باب 7 میں سینیٹ انتخابات کا مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے۔

سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت نہیں بلکہ قانون کے تحت ہوتے ہیں، اسی لئے حکومت سپریم کورٹ آئی ہے کہ عدالت عظمی سے رائے لے سکے، استدعا ہے کہ عدالت قرار دے کہ سینیٹ الیکشن قانون کے تحت ہوتا ہے اور قانون میں ترمیم ہوگی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 122(6) میں ترمیم کا مسودہ تیار ہے۔

عدالت نے سینیٹ الیکشن آئین کے تحت قرار دیا تو بہت پیچیدگیاں ہوں گی، ایسے میں سینیٹ الیکشن کی مخصوص نشستوں پر الیکشن ناممکن ہو جائے گا، آرٹیکل 226 کے تحت رائے شماری خفیہ ہوگی، آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوا تو مخصوص نشستوں کی نمائندگی بھی نہیں ہوسکے گی۔ 

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ جہاں آئین خاموش ہوگا وہاں قانون کا اطلاق ہوگا، بتایا جائے سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ کار قانون میں کہاں لکھا ہے؟ ہمسایہ ملک بھارت نے سینیٹ انتخابات اوپن کرکے اس کا مکمل طریقہ کار وضح کیا۔ عدالت عظمی نے مزید سماعت پیر 18 جنوری تک ملتوی کر دی۔

تازہ ترین