• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کے دوران ایک بڑے ٹی وی چینل نے مجھے پاکستان ڈیبٹ کے پروگرام میں مباحثے کیلئے مدعو کیا۔ میرے ساتھ ماہر تعلیم ڈاکٹر خالدہ غوث موضوع کی مخالفت اور موضوع کی حمایت میں دفاعی تجزیہ نگار پاکستان ایئر فورس کے ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ اور ماہر تعلیم ایئر کموڈور (ر)انعام درانی شریک تھے۔ نہایت دلچسپ اور اہم موضوع ہونے کے ناتے میں چاہوں گا کہ اس مباحثے کی تفصیل اپنے قارئین سے شیئر کروں۔ موضوع کی حمایت میں کہا گیا کہ تعلیم لوگوں کے ذہن کھولتی ہے اور ان میں صحیح اور غلط سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا فقدان اور ناخواندگی کی وجہ سے دہشت گردوں کیلئے یہ آسان ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر ”برین واش“ کرکے اپنا آلہ کار بنالیتے ہیں۔ میں نے اپنی بحث میں بتایا کہ سری لنکا میں 90% سے 95% تک شر ح خواندگی پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود 30 سال تک تامل باغیوں نے سری لنکا میں دہشت گردی جاری رکھی۔ دہشت گردی کو آسان لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ آپ طاقت اور زور زبردستی کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر دوسروں پر مسلط کریں جس پر عملدرآمد کرانے کیلئے پاکستان میں مختلف طریقے اختیار کئے گئے ہیں لیکن میرے نزدیک دہشت گردی کی اصل وجہ غربت اور دہرا تعلیمی نظام ہے۔ ایک باپ اپنے بچوں کے خالی پیٹ کو بھرنے کیلئے مجبور ہوکر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں والدین اپنے بچوں کو مذہبی مدرسوں میں اس وجہ سے بھی بھیج دیتے ہیں کہ وہ مدرسے ان کی تعلیم، کھانے پینے، کپڑے اور رہائش کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں جو ان کے والدین غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ مدرسوں میں ان بچوں کے معصوم ذہنوں کو مختلف انداز میں ڈھالا جاتا ہے اور وہ عارضی زندگی کے بعد موت کے بعد کی ابدی زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کیلئے اپنی جان تک دینے کو تیار ہوجاتے ہیں اور یہ عمل پاکستان میں حالیہ دہشت گردی اور خود کش دھماکوں سے نظر آتا ہے۔ میں نے بحث کے دوران بتایا کہ ملک میں دہرے نظام تعلیم کی وجہ سے 3 مختلف ذہن پرورش پارہے ہیں اور ہر نظام تعلیم سے فارغ ہونے والے طلباء دوسرے نظام تعلیم کو غلط سمجھتے ہیں۔ پہلا مذہبی مدرسے جو بچوں کو صرف مذہبی تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان میں سے زیادہ تر مسجدوں کے موذن یا پیش امام یا دینی اداروں سے منسلک ہوجاتے ہیں، دوسرا حکومت کے پیلے اسکول جو فرسودہ نصاب تعلیم اور غیر تربیت یافتہ ٹیچروں کی وجہ سے کلرکوں کی ایک کھیپ تیار کررہے ہیں، ہاں ان میں سے کچھ ذہین طلباء اپنی محنت اور ذہانت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اہم عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں لیکن ان کی تعداد نہایت کم ہوتی ہے جبکہ تیسرے انگلش میڈیم تعلیمی ادارے جہاں او لیول اور اے لیول کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں اور ان طلباء کو غیر ملکی معروف تعلیمی اداروں میں داخلہ مل جاتا ہے اور وہ غیر ملکی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوکر ملک اور ملک سے باہر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور یہی پاکستان کی رولنگ کلاس کہلاتے ہیں۔ ہمیں ان 3 مختلف معیار تعلیم کے مابین فرق کو کم کرنا ہوگا اور ایسا نصاب تعلیم متعارف کرانا ہوگا جس میں دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیمی تقاضے بھی پورے کئے گئے ہوں۔ برطانیہ میں بھی پبلک اور پرائیویٹ اسکولز کا نظام رائج ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں بہتر تعلیمی سہولتوں کی وجہ سے ان کی فیسیں زیادہ ہوتی ہیں لیکن دونوں نظاموں میں نصاب تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے اور ان تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلباء کے ذہن منقسم نظر نہیں آتے۔
ہمیں دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے ملک میں نئی ملازمتوں کے یکساں مواقع پیدا کرکے غربت میں کمی لانا ہوگی کیونکہ کسی بیروزگار اور غریب کے خالی پیٹ سے کچھ بھی امید کی جا سکتی ہے۔ حکومت کو ملک میں صنعت کاری بالخصوص چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی کیونکہ یہ سیکٹر کسی بھی ملک میں ملازمتیں فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کیلئے ہمیں اپنی جی ڈی پی گروتھ کو متواتر5 سال تک 6% سے 7% تک بڑھانا ہوگا اور بینکوں کے شرح سود میں کمی کرکے اونچی گروتھ پر مبنی پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ پاکستان میں اس وقت تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا 1.5% ہے، اسے بڑھاکر کم از کم 4% کرنا ہوگا تاکہ ملک میں معیاری تعلیم فراہم کرکے خواندگی کی شرح کو بڑھایا جاسکے جس سے لوگوں کے ذہن کھلیں اور وہ صحیح فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو دولت کی مساوی تقسیم کے ذریعے لوگوں میں احساس محرومی کو بھی کم کرنا ہوگا۔
الیکشن سے قبل فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنماؤں کو فیڈریشن میں اپنی اپنی جماعت کا معاشی منشور پیش کرنے کیلئے مدعو کیا تھا۔ اور بزنس کمیونٹی کی طرف سے میرے علاوہ بزنس رہنما ایس ایم منیر، سینیٹر حسیب خان اور فیڈریشن کے اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ ایک اہم کانفرنس ”پاکستان کیلئے ووٹ“ منعقد کی تھی جس میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی کے نمائندوں نے اپنی اپنی جماعت کی معاشی ترجیحات پیش کیں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اس پر بحث کی۔ میں نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ آنے والی حکومت کیلئے دہشت گردی اور ناخواندگی کے علاوہ دوسرے اہم چیلنجز میں ملک میں انرجی کا بحران، کرپشن، گڈ گورننس، سرکولر ڈیٹ،خسارے میں چلنے والے قومی اداروں میں اصلاحات، بڑھتا ہوا مالی خسارہ اور ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں اضافہ ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی کو موثر بنانے کیلئے ہمیں ہر آمدنی پر ٹیکس وصول کرنا ہوگا، چاہے وہ زرعی شعبہ سے ہو یا سروس سیکٹرسے۔ اس وقت ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے جی ڈی پی میں 2% اور امن و امان کی ناقص صورتحال، ہڑتالوں اور دہشت گردی کی وجہ سے 1.3% سالانہ کمی ہورہی ہے۔ ہمارا انرجی مکس خطے میں سب سے مہنگا ہے۔ ہمیں ملک میں پانی کے ذخائر کو استعمال کرکے ہائیڈرو پاور کے درمیانے اور چھوٹے درجے کے منصوبوں سے سستی بجلی زیادہ سے زیادہ پیدا کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں متبادل انرجی کے ذرائع جس میں کوئلہ، ہوا اور سولر انرجی شامل ہیں کو استعمال کرکے صاف اور سستی بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔ نیوکلیئر سول انرجی بھی سستی اور صاف انرجی کی ضامن ہے۔ چائنا پہلے ہی پاکستان میں چشمہ I اور چشمہ II سے مجموعی 660 میگاواٹ سول نیوکلیئر انرجی پیدا کررہا ہے اور 660میگاواٹ کے مزید 2 پروجیکٹس چشمہ III اور چشمہ IV پاکستان میں لگانے کیلئے معاہدہ کیا ہے جس پر ہمیں جلد از جلد عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اسی طرح پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ملک کی معاشی و صنعتی ترقی کیلئے نہایت اہم ہے اور آنے والی حکومت کو اس منصوبے کو ہر حالت میں دسمبر 2014ء تک مکمل کرنا ہے تاکہ اس منصوبے سے ہم اپنی قدرتی گیس کی کمی کا تقریباً 50% پورا کر سکیں۔اسی طرح گوادر پورٹ کے انتظامی معاملات چائنا کو دینے سے گوادر پورٹ کی ترقی سے خطے میں پاکستان کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جو ہماری معاشی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔ میں نے بتایا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ان دونوں منصوبوں کو کسی دباؤ کے تحت موخر یا بند کرتی ہے تو وہ اس کی سیاسی موت ہوگی۔ الیکشن کا جوش و خروش اور لوگوں کی حکومت سے وابستہ امیدیں دیکھتے ہوئے میں امید کرتا ہوں کہ آنے والی حکومت ان معاشی چیلنجز کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرکے لوگوں کے ”نئے پاکستان“ کے خواب کو پورا کرے گی۔
تازہ ترین