• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انصار عبّاسی (11جنوری2021) ریاست علما اور معاشرہ کی توجہ کے لیے

جناب عباسی صاحب بہت خوب کالم لکھا، ماشاء اللہ آپ نے واقعی بہت اچھی تجاویز دی ہیں، علمااسلام کو اس سلسلے میں اقدامات لا زمی کرنے چاہئیں۔ (انجم عزیز)

عطاالحق قاسمی(11 جنوری2021) فن کے نام پر گندگی کے ڈھیر!

جناب قاسمی صاحب خاندانی نظام کی تباہی انتہائی پریشان کن ہے۔ ایسے نامناسب ڈراموں کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ (صغیر احمد)

ارشاد بھٹی (14جنوری2021) براڈ شیٹ اور ہائوس آف شریف!

آپ نے اپنے کالم میں حکمران طبقہ کو بہت عمدہ انداز میں واضح کر کے بے نقاب کیا ہے۔ بدترین حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ معاشرے کے ستونوں کو خراب کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ (محمد انور خان)

مظہر برلاس (12 جنوری 2021) آخری اپیل

برلاس صاحب آپ نے درست کہا اگرعورت چاہے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ عورت ہی اپنے بچوں کو حلال اور حرام کی تمیز سکھا سکتی ہے۔ (ارمان قریشی، ننکانہ)

بلال الرشید (13جنوری2021)جذبات یا عقل، فیصلہ خود کیجیے!

بلال صاحب آپ کا یہ کالم بہت زبردست ہے۔ اسے پڑھ کر یہ سمجھ میں آیا کہ عقل اور جذبات دونوں انسان کی فطرت میں ہیں، تاہم جذبات کا عقل کے تابع ہونا لازمی ہے ورنہ زندگی میں توازن برقرارنہیں رہے گا۔ (محمد یوسف، نوشہرہ)

الطاف حسن قریشی (15جنوری2021) سسٹم سے اٹھتا ہوا دھواں

قریشی صاب آپ نے بہت خوب لکھا ہے۔ سسٹم کی بربادی تو بہت پہلے سے چلتی آرہی ہے لیکن اب اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ بدنصیبی سے ہم نے ادارے بہتر بنانے کی بجائے ذاتی مفادات کو مقدم رکھا تاہم عوام جمہوریت کےساتھ اب مزید ناانصافی برداشت نہیں کر سکتے۔ (نفیسہ شاہ، ملتان)

ڈاکٹر صغرا صدف (10جنوری 2021) قوالی،روح کی سرشاری کا وسیلہ

صغرا صدف صاحبہ آپ کے کالم کی تعریف کیلئے الفاظ میسر نہیں۔ آج کل قوال حضرات کا زور کلام کے بجائے موسیقی پر زیادہ نظر آتا ہے۔ (شبیر احمد، لاہور)

ایس اے زاہد (12جنوری 2021) سانحہ مچھ کے بعد۔۔۔۔

حکومت کو اپنی ذمہ داری کا خیال کرنا چاہیےاور سانحہ مچھ کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے سدباب پر لازمی غور کرنا چاہیے۔ حکومت عوام کے مسائل کے حل سے نظریں نہ چرائے۔ (ثمینہ حسن، بھکر)

اپنا محاسبہ کریں!

ہم لوگ دن بدن ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ وقت کے ساتھ ترقی کرتے ہیں جب کہ ہم آئے روز تنزلی کی راہ پر گامزن ہیں۔ شائد اس کی وجہ سستی اور بے مقصد زندگی ہے۔ اخلاقیات کے حوالے سے بھی ہماری مثال خالی برتن کی سی ہے۔ نو جوان اپنی زندگیوں اور مستقل کے بارے میں بالکل غیر سنجیدہ نظر آرہے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لوگ سوچتے کیوں نہیں ہیں۔ اچھے بھلے تندرست، صحت مند دکھائی دینے والے لوگ ظاہر ہے تندرست دماغ بھی رکھتے ہی ہوں گے لیکن اس کو استعمال میں نہیں لانا چاہتے۔ ہم کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں اور ہمارا آنے والا کل کیا ہو گا۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی اب آشکار ہو چکا ہے کہ وہ بامقصد زندگی گزارنے کا ہنر ہرگز نہیں سکھاتا۔بس یہی سننے کو ملتا ہے کہ ــ ـدیکھ لیں گے ابھی بڑا وقت پڑا ہے ۔ زندگی میں ایک مقصد ہوناچاہیے۔ کچھ اُصول اور نظم وضبط ہونا چاہیے ۔ کوئی ایک ایسا مقصد جو ہماری پہچان بن جائے۔ بس اپنے اندر جھانکنے کا وقت آگیا ہے۔

(علی رضا،لاہور )

تازہ ترین