زمانہ قدیم کی اساطیری داستانوں میں بادشاہوں اور بزرگوں کے پاس ایسے آلات ہوتے تھے جن میں انہیں مستقبل کی تصویر نظر آ جاتی تھی، مثلاً ایران کے بادشاہ جمشید کے پاس ایک ایسا پیالہ تھا جس میں اسے آنے والے وقت کی جھلکی دکھائی دیتی تھی، اسی پیالے کے بارے میں مرزا غالب نے غالباً جل کر یہ کہا تھا :
جام جنم سے مرا جام منال اچھا ہے!
داستانوں میں ذکر ملتا ہے کہ کسی کے پاس طلسمی آئینہ تھا، کسی کے پاس کوئی بلوریں کرہ تھا جس میں جھانک کر پیش بینی کی جا سکتی تھی، مگر افسوس… صد افسوس… زمانے نے ترقی کی، روایتی ٹیکنالوجی کو عروج ملا اور مستقبل تلاش کرنے کی یہ طلسماتی ٹیکنالوجی غائب ہو گئی۔ اب لے دے کے چند بنگالی بابے بچے ہیں، ان میں سے بھی کوئی نہ کوئی آئے دن کسی فراڈ میں پولیس کے چھتر کھا رہا ہوتا ہے۔ ان طلسماتی پیالوں، کروں اور آئینوں کے غائب ہونے کے باوجود، انسان کے اندر اپنا مستقبل جاننے کی ہوس ختم نہیں ہو سکی۔ اس کے اب اسے اندر کی خبروں، اندازوں، تجزیوں اور تحقیقاتی جائزوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جن میں سے اکثر غلط بھی ثابت ہوتے ہیں۔
11 مئی کے انتخابات کے بعد سے اب تک ہر کوئی یہ اندازے لگانے میں مصروف ہے کہ مسلم لیگ ن کی آنے والی حکومت کا مستقبل کیا ہو گا؟ ٹامک ٹوئیاں اور قیاس آرائیاں ہی ہیں، ہم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ آج ہم بھی کچھ اندازے لگانے کی کوشش کرتے ہیں، ان اندازوں کی بنیاد، جوتش، رمل، جفریا پامسٹری ہرگز نہیں بلکہ کچھ چھپے ہوئے بیانات اور کچھ اندر کی خبریں ہیں، پڑھیے اور مزہ لیجئے۔
سب سے پہلے یہ کہ سیاسی محاذ پر کیا ہو گا؟
قارئین کرام نے گزشتہ پیوستہ روز کے اخبارات میں جناب شہباز شریف کا یہ بیان ضرور پڑھا ہو گا کہ موجودہ نگران حکومت آصف علی زرداری کی آلہ کار بن چکی ہے اور یہ کہ ہم اس بارے میں سخت رویہ بھی اختیار کر سکتے ہیں! گزشتہ روز ایوان صدر سے ایک جوابی بیان شائع ہوا کہ تقرر و تبادلے نگران حکومت کر رہی ہے، صدر ان معاملات سے لاتعلق ہیں۔
تفصیل اور پس منظر اس معاملے کا یہ ہے کہ جاتی عمرہ رائے ونڈ سے موجودہ نگران حکومت کے ایک ذمہ دار سیکرٹری کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی یہ خواہش ہے کہ فلاں کو سیکرٹری کابینہ بنا دیا جائے، فلاں کو یہ ذمہ داری دے دی جائے، فلاں کو وہ! سیکرٹری صاحب نے پیغام سنا اور کہا کہ وہ نگران وزیراعظم سے منظوری لے کر ان ”خواہشات“ کے مطابق تقرریاں کر دیں گے۔ جب سیکرٹری نے نگران وزیراعظم سے پوچھا تو انہوں نے کہا ”ابھی رک جاؤ میں صدر صاحب سے مشورہ کر لوں“۔ نگران وزیراعظم نے صدر سے بات کی تو جواب ملا: ”ابھی کسی خواہش یا حکم“ کو ماننے کی ضرورت نہیں… ابھی تو کسی نے اسمبلی کا حلف بھی نہیں اٹھایا، جب ان کی حکومت بن جائے گی تو شوق سے تبادلے کر لیں“۔ یہ جواب جب رائے ونڈ والوں کے علم میں آیا تو میاں شہباز شریف نے بیان داغ دیا۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب کی بار مسلم لیگ ن کو وفاق میں ایک مختلف پیپلز پارٹی اور مختلف آصف زرداری سے واسطہ پڑے گا۔ آصف زرداری، مرحوم صدر غلام اسحاق کی طرح Go By The Book پر چلنے کی روایت پر عمل کریں گے اور مسلم لیگ ن کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ادھر اسمبلی اور سینیٹ میں پیپلز پارٹی زخم کھائے بیٹھی ہے، اب کی بار وہ بھرپور اپوزیشن پارٹی بن کر سیاست کرے گی جس میں بہرحال تصادم ہی جنم لے گا!!
دوسری طرف عمران خان ہیں جنہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ”دوستانہ میچ کھیلیں گے نہ اسمبلیوں میں فرینڈلی اپوزیشن کریں گے۔ پارلیمنٹ میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ فرینڈلی میچ نواز شریف کی ذاتی سوچ ہے“۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اس بار حکومت کی مخالفت کرنے میں عمران خان اور پیپلز پارٹی میں 20`20 میچ ہو گا کہ کون زیادہ بڑھ کر چوکے چھکے لگاتا ہے۔ عمران خان کے بستر سے اترنے کی دیر ہے، آپ اسے سڑکوں پر ہی پائیں گے! مظاہرے اور دھرنے شاید بڑھ کر جلسے جلوسوں کی شکل اختیار کر جائیں، انجام اس کا بھی تصادم ہی ہو گا!تیسری طرف آج پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا ایک بیان چھپا ہے کہ نئے حکمران جان لیں، عدلیہ انہیں کوئی رعایت فراہم نہیں کرے گی، نئے آنے والوں کو عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانا ہو گا، ورنہ ان کا حال بھی پچھلے حکمرانوں جیسا ہو گا، اس عدالتی موقف پر ہیں اس کے سوا اور کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا کہ بوجوہ اس بیان کو پوری عدلیہ کا موقف سمجھا جانا چاہئے۔ طوالت کا خدشہ ہے، باقی سیاسی باتوں کا ذکر پھر سہی… آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مسلم لیگ کے مینڈیٹ کو سب سے بڑا خطرہ لوڈ شیڈنگ اور موسم گرما سے ہو گا، شہروں میں 20`20 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، دیہات کا کیا حال ہو گا، بجٹ سازی کا وقت نہیں مگر 30 جون سے قبل بجٹ منظور کرانا ہو گا، خزانہ خالی ہے، مگر جون میں تنخواہوں میں اضافوں کے مظاہرے بھی شروع ہو جاتے ہیں… پھر فوج سے تعلقات، ڈرون حملوں، طالبان کے حملے، دہشت گردی، کراچی میں بے امنی، بلوچستان میں ناراضی، بے روز گاری غربت اور مہنگائی!!مسلم لیگ ن کی حکومت کے لئے آنے والا وقت آسان ہرگز ہرگز نہیں ہو گا، انہیں ہر محاذ پر بیک وقت چومکھی جنگ لڑنا ہوگی۔ ہم دعا کرتے ہیں مسلم لیگ ن کے جہاز کی پرواز کسی فضائی تلاطم کا شکار ہوئے بغیر اڑتی رہے، اس کا حشر اس جہاز کی طرح ہرگز نہ ہو جس نے پاکستان کے ایک کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا، پائلٹ نے کہا کہ ”میں اس وقت آپ کے ہوائی اڈے سے صرف پچاس میل دور ہوں، میرا پٹرول تقریباً ختم ہو چکا ہے، بتایئے میں کیا کروں؟ اس پر کنٹرول ٹاور سے جواب ملا: کلمہ پڑھ سوہنیا… پٹرول یہاں بھی ختم ہے اوپر سے لائٹ بھی جانے والی ہے… اللہ تجھے اپنی پناہ میں جگہ دے!!