• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الرجی کے نتیجے میں متعدّد عوارض جنم لے سکتے ہیں، جن میں سب سے خطرناک مرض دَمہ ہے،جو سانس کی نالی میں سوزش کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔اصل میں جب الرجی کا سبب بننے والے ذرّات پھیپھڑوں کی نالیوں میں داخل ہوتےہیں، تویہ متوّرم ہوکر اس قدر تنگ ہوجاتی ہیں کہ سانس لینادشوار ہو جاتا ہے۔اس مرض سے متعلق یہ تصوّر عام ہے کہ ’’دَمہ، دَم کے ساتھ جاتا ہے‘‘،تو یہ ہرگز درست نہیں۔

یہ مرض قابلِ علاج ہے اور اس پر قابو رکھا جاسکتا ہے، بشرطیکہ معالج کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔دَمے کی علامات کھانسی، سانس میں رکاوٹ اور سانس لینے اورخارج کرنے میں سیٹی کی سی آوازیں آنا،سینے کی جکڑن ، بار بار انفیکشن، اور سینے میں درد وغیرہ شامل ہیں۔مرض کی شدّت میں اضافےکے اسباب میں گرد وغبار،دھول مٹّی،پولن،بال اور پَر والے جانور، پرندے، لال بیگ، لکڑی پر کھانا، کوئی جذباتی دبائو، لڑائی جھگڑا، سینے کا انفکیشن،تمباکو نوشی،مخصوص ادویہ،دِل کے بعض عوارض،نظامِ ہاضمہ کی خرابی،سخت محنت و مشقّت، مٹّی کا تیل، پرفیومز، پائوڈر کا استعمال،ہائوس ڈسٹ مائٹس، گاڑیوں کا دھواں اور اسپرے پینٹ وغیرہ شامل ہیں ۔دَمے کی تشخیص کے لیے عموماً اسپائٹرومیٹری،سینے کا ایکس رے، بلڈ ٹیسٹ اور بعض کیسز میں مختلف اقسام کے الرجی ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔

چوں کہ دَمے کا کوئی دائمی علاج نہیں ،اس لیے عمومی طورپر معالج اِن ہیلر یا پھر مخصوص ادویہ تجویز کرتے ہیں،جو مرض کی شدّت کم کرنے میں اکسیر ثابت ہوتے ہیں۔موجودہ دَور میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سےمنظور شدہ ایک نیا طریقۂ علاج بھی مستعمل ہے، جو Bronchial Thermoplastyـ کہلاتا ہے۔ اس علاج کے نتیجے میں بعض مریضوں کےپھیپھڑے متوّرم ہو سکتے ہیں اور بعض اوقات دَمہ شدّت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ 

یہ طریقۂ علاج اُن مریضوں کے لیے فائدہ مند نہیں، جن کے مرض کی نوعیت معمولی ہو۔ یہ صرف ان مریضوں کے لیے ہی مؤثر ثابت ہوتا ہے، جنہیں علاج کے دیگر طریقوں سے افاقہ نہ ہوا ہو۔ ایک تحقیق سے ثابت ہو چُکا ہے کہ دَمے کے مریضوں کے علاج کے ضمن میں وٹامن ڈی بہت افادیت کا حامل ہے۔

اصل میں وٹامن ڈی سے مدافعتی نظام کو طاقت ملتی ہے اور جن مریضوں کے جسم میں وٹامن ڈی کی مقدار زائد پائی جاتی ہے، ان کا مرض بھی خاصا کنٹرول میں رہتا ہے۔علاوہ ازیں، دَمے کے علاج کے لیے اسٹرائیڈز بھی تجویز کی جاتی ہیں، تاہم یہ ادویہ تمام مریضوں کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ الرجی کے سبب لاحق ہونے والے دَمے میں IgEلیول کافی حد تک بڑھ جاتا ہے،جس کے نتیجے میںنہ صرف دَمےکا دورہ جلدی جلدی پڑتا ہے،بلکہ شدّت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

احتیاطی تدابیر کے ضمن میں سب سے اہم تویہی ہے کہ ان عوامل سے بچا جائے، جو دَمے کی شدّت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے آلودہ ماحول، گردوغبارسے محفوظ رہا جائے۔ اگر کسی شے سے الرجی ہو تو اس کا استعمال ترک کردیا جائے۔ اور اپنے معالج کی ہدایات پر لازماً عمل کیا جائے۔ (مضمون نگار ،ہیلتھ کئیر سینٹر،ساہی وال میں فرائض انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین