• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹر راحیل احمد۔لندن
حال ہی میں میری اہلیہ کی دادی برطانیہ سے پاکستان گئیں، وہ بدقسمتی سے کورونا وائرس میں مبتلا ہوگئیں اور ایک نجی اسپتال میں اس وقت داخل ہیں۔ کل جب میں ان سے فون پر بات کر رہا تھا، تو فرمانے لگیں کہ بیٹا یہاں تو چوہے بہت ہیں، میرے سسر جوفون تھامے ہوئے تھے، ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگے کہ چند سفید کوٹوں کے سوا کچھ نظر تونہیں آ رہا، دادی نے ان کی حیرت کوبھانپتے ہوئے کہاکہ چوہے دن کو نہیں نکلتے، بس یوں سمجھ لو جیسے ہی گھڑی نے رات کا ایک بجایا پہلا چوہا آیا، وہ او پی کےطور پر ریکی کرتا ہے، پھر ہلکی سی سیٹی بجاتا ہے گویا راستہ صاف ہونے کی اطلاع دے رہا ہو، دیکھتے ہی دیکھتے چوہوں کا ایک پوراجتھہ وارڈ پر حملہ کر دیتا ہے۔ وہ باری باری ہر بیڈ پر جاتے ہیں، گویا میڈیکل اسٹوڈنٹس ہوں ویسے ہی ڈرے ڈرے مگر بظاہر اکڑےہوئے دموں کو اٹھا کر یوں چلتے ہیں جیسے اسٹیتھواسکوپ گلے میں ڈالی ہوں، بس یوں سمجھ لو، جیسے اس نیم تاریک وارڈ میں ان کی حکمرانی ہو، مریضوں کے برتنوں میں منہ ڈالتے ہیں، جیسے سونگھ کر کھانے کی کوالٹی چیک کر رہے ہوں، ایک بار کیا دیکھتی ہوں کہ ایک چوہا سوئے ہوئے مریض کے خراٹے لیتے منہ کے اندر جھانک رہا ہے، یقین جانو دل دہل گیا کہ اگر ذرا بھی اس کا پاؤں پھسلاتو یہ اندر جا گرے گا مگر کمبخت اتنے ٹرینڈ ہیں کہ مجال ہے نبض چیک کرتے وقت یا دھڑکنیں گنتے وقت حساب کتاب میں کوئی غلطی کریں، مجھے پہلے ہی سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے، اگر یہ چوہے یونہی شغل فرماتے رہے تو جان لو میں ٹھیک ہونے والی نہیں۔ اس دوران، دادی نے مجھے وہاں سے گزرتے ایک جونیئر ڈاکٹر سے بات کرنے کے لئےکہا، اس نے مجھے بتایا کہ ہماری دادی کی دیکھ بھال بہت اچھی طرح سے کی جارہی ہے، وہ دن میں 120mg کی سٹیرؤیڈ ڈوز، دو اینٹی بائیوٹکس اور ایک مہنگی trial دوائی پر ہے،میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ان دوائیوں کے تجربات برطانیہ میں ہی ہمارے سامنے ہوئے ہیں، وہ بیس گنا زیادہ اسٹیرائڈڈوز دیں رہے ہیں، یہ کہ کورونا وائرس کے علاج میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت نہیں ہے اور مہنگی آزمائشی دوائیوں کی بھی ضرورت نہیں ہے جب کہ دادی کی صحت پہلے سے بہتر ہو رہی ہے لیکن شاید وہ سننے کے موڈ میں نہیں تھے، ہم نے دادی کو تسلی دی آپ ان چوہوں سے خوفزدہ نہ ہوں یہ تو بیچارے خود ڈرے ہوئے ہیں اور اپنی بھوک مٹانے کے لئے بیماروں اور لاچاروں کا چھوڑا ہوا کھاتے ہیں، جہاں تک ان کے وارڈ کا راؤنڈ لگانے کا سوال ہے تو ہو سکتا ہے یہ گورےڈاکٹروں کی روحیں ہوں جو اپنی پروفیشنل پیاس بجھانے کی خاطر اب بھی ادھر بھٹک رہی ہیں، اتنے میں ادھر سے تین چوہے آگئےایک میز پر کسی مریض کا ٹیسٹ کے لئے نکالا ہوا خون رکھا تھا وہ تینوں چوہے آکر میز پر بیٹھ گئےاور مریض کا خون پینے لگے، ان کے منہ سے چپڑ چپڑ کی آوازیں نکل رہی تھیں جو ساری وارڈ میں گونج رہی تھیں لیکن وارڈ کے مکین شاید اس کے عادی ہو چکےتھے وہ بے حس و حرکت پڑے تھے، ان کی آنکھیں بند تھیں، بس ان کے ذہن جاگ رہے تھے،دادی کہنے لگی میں اپنی بیماری سے اتنا نہیں ڈرتی جتنا ان چوہوں سے ڈر لگتا ہے۔ دادی کے دوسرے بیٹے ذیشان کہنے لگے آپ سچ کہتی ہیں، میں آپ کی تیمارداری سے اتنا نہیں تھکتا جتنا دوائیاں لا لا کر تھک گیا ہوں، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اتنی دوائیاں ایک مریض کیسے کھا لیتا ہے،ماں معصوم ہوتی ہے، تشویش بھرے لہجے میں کہنے لگیں، آدھی دوائیاں کہیں چوہے نہ کھا جاتے ہوں، ہم نے ہنس کر کہا، چوہےدوائیاں ہی نہیں کھاتے یہ دفتروں کی فائلیں بھی کھا جاتے ہیں، گوداموں میں رکھا اناج چٹ کر جاتے ہیں، بنکوں کے نوٹ کتر جاتےہیں، یہ بجلی کی تاروں، میٹروں، ٹرانسفارمروں میں سوراخ کر دیتے ہیں، ریلوے ان سے بھرا ہوا ہے اور ہوائی سفر کے یہ عادی ہوگئے ہیں، صنعتی کارخانے اور ملیں ان کے ہاتھوں تباہ گئی ہیں، غرض دادی! میں آپ کو کیا بتاؤں یہ چوہے ہماری زندگی کے ہر شعبےمیں موجود ہیں اور ہر طرف ان کی حکمرانی ہے۔ دادی یہ باتیں سن کر شاید مزید خوفزدہ ہو گئی کہنے لگی میں تو ہسپتال کے چوہوں سے سہمی ہوئی تھیں یہ تم نے ہر جگہ سے چوہے نکال دیئے ہیں، میرا دل دھک دھک کرنے لگا ہے۔ ڈاکٹر کو بلواؤ میری ای سی جی کرے، ہم نے کہا ڈاکٹر خان سویا ہوا ہے، ضروری نہیں آپ ڈسٹرب ہیں تو آپ ان کو بھی ڈسٹرب کریں اور جہاں تک چوہے نکالنے کا تعلق ہے تو چوہے طوفان کی آمد سے پہلے جہازکے ڈوبنے سے قبل نکلا کرتے ہیں، آپ نے ٹائی ٹینک کے غرق آب سے قبل یہ منظر دیکھا ہو گا مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ طوفان آئے گا چوہے بھی نکلیں گے لیکن ہمارا جہاز اپنی منزل کی طرف چلتا رہے گا۔ دادی نے کہا آمین۔
تازہ ترین