• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسمارٹ رہنا چاہتے ہیں، مگر ’’ورزش‘‘ نہیں کرنی

اسد اقبال

تندرستی ہزار نعمت ہے اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں لیکن 80 فیصد نوجوان صحت مند رہنے کےلئے روزانہ ہلکی پھلکی ورزش بھی نہیں کرتے یہ انکشاف عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او)کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 11 سے 17 سال کی عمر کے ہر پانچ میں سے چار بچے صحت مند زندگی کے لیے درکار ورزش نہیں کر رہے۔

نوجوانوں کو شروع سے ہی ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنا نا چاہیے ،کیوں کہ یہ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔اس کے فوائد کا شمار کرنا مشکل ہے۔ ورزش سے جسم میں متعدد مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور بیماریاں دور رہتی ہیں۔

اگر گھر میں کوئی نوجوان اپنے کمرے میں کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھا رہتاہے اورکھانے کے وقت بھی وہ اپنے کمرے میں ہی کھاناکھاتا ہے تو یہ حیرت کی بات نہیں کیونکہ کہ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ ایسے نوجوان بیماریوں کو ازخوددعوت دیتے ہیں۔روغنی غذائیں ، کمپیوٹر اور موبائل اسکرین پر دوستوں کے ساتھ پپ جی میںمصروف ، رات کو دیر تک جاگنا اور دوسرے دن دوپہر تک نیند پوری کرنا آج کے نوجوانوں کا مزاج بن چکا ہےاس طرح وہ صحت کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرر ہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے 146 مملک کی فہرست میں پاکستان کو 118واں نمبر دیا گیا، جہاں 86.9 فیصد بچے چوبیس گھنٹوں میں سے بمشکل ایک گھنٹہ متحرک رہتے ہیں۔

ماہرین نے دنیا میں نوجوانوں کے غیر متحرک ہونے کی وجہ اسمارٹ فونز اور دیگر ٹیکنالوجی کو قرار دیا ،جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ دیہی علاقوں کے نوجوان شہریوں سے زیادہ متحرک اور چست ہوتے ہیں۔

کھیل اور ورزش سے صحت مند قومیں تیار ہوتی ہیں۔ معاشرے میں غیر اخلاقی اور غیر صحت مند سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یوگا سمیت دیگر کھیل اور اور ورزش کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جانا چاہیے، جس سے نوجوان نسل مغربی ثقافتی یلغار کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں ،اس کے علاوہ مختلف منفی سرگرمیوں مثلاً نشہ ، فحاشی اور جنسی بے راہ روی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کے مقابلے میں ورزش اور کھیلوں میں دل چسپی لینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ خواہ تھوڑے وقت کےلئے ہی کیوں نہ ہو‘ چاق چوبند پھرتیلا اور تیز کردیتی ہے۔ ورزش کی عادت بچپن سے ہونی چاہیے۔ ایک وقت تھا کہ اسکول کے بچوںکےلئے پی ٹی لازمی ہوتی تھی اب عموماََ ایسانہیں ہے۔ ورزش کی صحیح تربیت سے کھڑے ہونے‘ چلنے‘ بیٹھنے کا صحیح انداز سیکھا جاتا ہے۔

اگر ورزش کے ساتھ شوقیہ کھیلے جانے والےمنظم کھیل بھی معمول بنالیے جائیں توزندگی منظم انداز میں گزاری جاسکتی ہے ۔ ایک وقت تھا جب،جسمانی تعلیم کھیل کود کے بغیر تعلیمی نصاب کوو ادھورا کہاجاتا ہے۔ اب اس پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق نوجوانوں کو ایک ہفتے میں کم ازکم پانچ دن تیس منٹ کے لیے واک کرنی چاہیے۔

ماضی میں ہاکی، فٹ بال اور کرکٹ کا شوق نوجوانوں کو میدانوں میں کھینچ کر لایا کرتا تھا، مگر اب زمانہ بدل گیا ہے، اب نوجوان کسی میدان میں نیٹ پریکٹس کی بجائے اپنے موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر ”نیٹ“ پریکٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں جہاں ٹیکنالوجی سے بے پناہ فائدے ہوئے ہیں وہیںاس نےہم سےہماری سب سے قیمتی چیز صحت چھین لی ہے۔

صبح کے وقت پارکس اور گراونڈز کا نظارہ کریںتو پارک میں ورزش کرتے نوجوان نہ ہونے کے برابرنظر آئیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ باقاعدہ ورزش کرنا تو دور کی بات روزمرہ کے کاموں میں بھی نوجوان اپنے جسم کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتے گھرسے ایک کلومیٹر فاصلے پر جانے کے لیے پیدل چلنے کی بجائے کار یا موٹر سا ئیکل پر جاتے ہیں۔ باقاعدہ ’’جم‘‘ بھی نہیں جاتے ۔ یاد رکھیں صحت کے لیے ورزش ضروری ہے اور آپ کی اسمارٹ رہنے کی خواہش بھی ورزش سے ہی پوری ہوگی ۔

تازہ ترین