کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کی جانب سے کئے گئے سوال کہ بلاول بھٹو کا اپوزیشن قیادت کو تحریک عدم اعتماد لانے کا مشورہ کیا اپوزیشن بلاول کی بات مانے گی ؟
جواب میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے عمران خان کو بطور وزیراعظم تسلیم کرلیا،پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ ایک فرینڈلی اپوزیشن کے تعلقات رکھنا چاہ رہی ہے۔
تجزیہ کارمحمل سرفرازنے کہا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انہوں نے پہلی بار کی ہے اپوزیشن قیادت یہ بات پہلے سے ہی کررہے ہیں۔کسی بھی جمہوری حکومت کو گھر بھیجنے کا جو جمہوری طریقہ ہے وہ تحریک عدم اعتماد ہی ہے۔تحریک عدم اعتماد لانا آسان کام نہیں ہے اس کے لئے اپوزیشن کو حکومت کے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ ایک بات تو ہوئی ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور بلاول بھٹو ایک پیج پر آگئے ہیں وہ بھی چائے پلانے کی بات کرتے ہیں یہ بھی چائے پلانے کی بات کرتے ہیں۔
پی ڈی ایم تحریک کے آغاز سے اب تک کسی ایک نقطے پر قائم نہیں رہی اور یہ تمام چیزیں پیپلز پارٹی کے مشورے پر واپس لی جارہی ہیں۔پیپلز پارٹی نے اس سسٹم کو تسلیم کرلیا ہےبلاول بھٹو نے وزیراعظم کو بطور وزیراعظم تسلیم کرلیا ہے ۔ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ ایک فرینڈلی اپوزیشن کے تعلقات رکھنا چاہ رہی ہے۔
آصف زرداری پہلے دن سے ہی نواز شریف کے بیانئے سے خوش نہیں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح نواز شریف نے کیا اس کا نقصان ہوا ہے کیونکہ اس ملک میں جب تحریکیں چلتی ہیں تو وہ چلتی نہیں چلائی جاتی ہیں اور حکومتیں گرتی نہیں گرائی جاتی ہیں۔
چلانے والے اور گرانے والے اس وقت اس موڈ میں نظر نہیں آتے۔پیپلز پارٹی کے اندر یہ بحث ہے کہ بعض فیصلے نواز شریف اور فضل الرحمٰن بالا بالا لے رہے ہیں۔پنڈی کی طرف مارچ کی جو اچانک بات آئی تھی اس سے پیپلز پارٹی پریشان ہوئی ان کے تحفظات تھے کہ یہ کس نے طے کرلیا۔
اس کے بعد فوری طور پر پیپلز پارٹی نے اس کو درست کروایاکہ ہم پنڈی کی طرف نہیں اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔
تجزیہ کاربینظیر شاہ نےکہا کہ سینیٹ کے چیئرمین کو تو آپ ہٹا نہیں سکے تحریک عدم اعتماد آپ کیا لائیں گے۔عدم اعتماد کے لئے آپ کواکثریت چاہئے ہوتی ہے ۔
آپ اگر بی این پی مینگل کے ووٹ بھی ڈال دیتے ہیں تو پھر بھی12 ووٹوں کی کمی ہے۔جس کے لئے آپ کو دونوں اتحادی جماعتوں PMLQ اورایم کیو ایم کی حمایت چاہئے ہوگی۔