• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظریات کی آبیاری ناصرف اپنے خون سے کی جاتی ہے بلکہ الزامات، دشنام تراشی کا مقابلہ بھی مردانہ وار کرنا ہی اِس راہ میں بچھے کانٹے چننے کے لئے واحد راستہ ہے۔ جب بھی صاحبِ اقتدار کے اقتدار کو کسی سے خطرہ درپیش ہوتا ہے تو وہ اُس خطرے کو رفع کرنے کی غرض سے ہر حربہ اختیار کرتا ہے۔ وطنِ عزیز کی بھی یہی تاریخ ہے جو کوئی بھی غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہے، اُس کے خلاف ہر قسم کا الزام، ہر قسم کا گالم گلوچ استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہمارا وتیرہ یہی ہونا چاہئے کہ ہم صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہیں کیونکہ ہمیں طاقت سے ٹکرانے کا درس اپنے اسلاف سے بدرجہ اتم حاصل ہوا ہے۔ بغداد کا منظر عجیب تھا، ایک طرف عباسی خلیفہ عبداللہ المامون کے انتقال پر سوگ منایا جارہا تھا اور دوسری جانب اُن کے بھائی معتصم باللہ کی خلافت کی ابتدائی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا تھا مگر اُسی دوران بغداد کا قاضی القضا احمد بن ابی داؤد ایک اور معاملے پر بڑا مضطرب تھا۔ نئے خلیفہ کے مرحوم خلیفہ بھائی کے حکم پر امام احمد بن حنبلؒ چار بیڑیاں پہنے بغداد واپس موجود تھے اور احمد بن ابی داؤد چاہتا تھا کہ جو طرزِ عمل مرحوم خلیفہ نے اختیار کیا وہی معاملہ نیا خلیفہ بھی اختیار کرے۔ امام احمد بن حنبلؒ کو اپنے نظریات کی وجہ سے سلطنت کے عتاب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ عباسی عہد میں معتزلہ عقائد کو دربارِ خلافت میں ایک وقت میں بہت اہمیت اور اُن کے علماء کو اثر و رسوخ حاصل ہو گیا تھا۔ اُن کا بنیادی مسئلہ، مسئلہ خلقِ قرآن تھا۔ علماء کی ایک کثیر تعداد معتزلہ کے اِس عقیدے کو درست خیال نہیں کرتی تھی اور اُن علماء میں ایک نمایاں نام امام احمد بن حنبلؒ کا بھی تھا۔ معاملہ صرف نظریات میں اختلاف کا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی مگر دربارِ خلافت سے حکم جاری کیا گیا کہ خلقِ قرآن کا انکار کرنے والا ناصرف مناصب سے محروم کر دیا جائے گا بلکہ اُس کو سخت سزا دی جائے گی۔ خلیفہ خود اُس وقت رقہ میں موجود تھا کہ جب اُس نے والیٔ بغداد کو حکم دیا کہ علمائے بغداد سے اِس نظریے کا اعلان کروایا جائے۔ والیٔ بغداد نے علماء کے ایک گروہ کو طلب کیا، عوام کے سامنے خلیفہ کا حکم بیان کیا اور ساتھ ہی ڈرا دھمکا کر اُس گروہ کے باقی تمام علماء کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا مگر سجادہ اسحاق، القواریری، محمد بن نوح اور امام احمد بن حنبلؒ نے اُس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ خلیفہ کو مطلع کیا گیا تو اُس نے جواب میں خط لکھا کہ احمد بن حنبلؒ کو بتا دو کہ ہم اُس سے بخوبی واقف ہیں، کچھ بھی ہو، ایک نہ ایک دن اُسے اپنے عقیدے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سجادہ امانتوں میں خیانت کا مرتکب ہوکر خدا کو فراموش کر بیٹھا ہے اور قواریری رشوت خور ہے، محمد بن نوح کو کہہ دو کہ اُن جیسے لوگ بھلا توحید کو کس طرح سمجھ سکتے ہے؟ یہ تمام الزامات تھے مگر اب اُن علماء کو اِن کا سامنا تھا۔ یہ چاروں قید کر دیے گئے، اگلے دن محمد بن نوح اور امام احمد بن حنبلؒ کو باقی انیس علما سمیت بیڑیاں ڈال کر طرطوس روانہ کر دیا گیا۔ محمد بن نوح تو راستے میں انتقال کر گئے، ابھی یہ قافلہ رقہ پہنچا ہی تھاکہ اطلاع ملی خلیفہ کا انتقال ہو گیا ہے اور اُن کا بھائی معتصم باللہ متمکنِ خلافت ہو گیا ہے۔ اُمید یہ تھی کہ اب اِن علماء کی گلو خلاصی ہوگی مگر خلیفہ نے احمد ابن ابی داؤد کو کہہ دیا کہ تم خلقِ قرآن کے سلسلے میں مکمل بااختیار ہو، جس طرح چاہو نافذ کرو۔ اِس سلسلے میں تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ کو کوٹھڑی میں قید کردیا گیا، خلیفہ اپنے حضور میں طلب کرتا، خلقِ قرآن پر آنے کی دعوت دیتا جب امام احمد بن حنبلؒ انکار کرتے تو اپنے سامنے اسی اسی کوڑے لگواتا اور پھر کوٹھری کی راہ دکھا دیتا۔ یہ سلسلہ 28ماہ تک جاری رہا۔ عوام میں امام احمد کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی جس کے باعث دربارِ خلافت گھبرا گیا، ایک دن خلیفہ نے اپنی موجودگی میں پھر پٹوایا اور اِس خوف سے کہ کہیں انتقال نہ کرجائیں، اُن کو رہا کر دیا۔ معتصم کے بعد واثق باللہ خلیفہ بنا تو اُس نے امام احمد بن حنبلؒ کو پھر نظر بند کر دیا، درس موقوف کرا دیا، یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا رہا مگر ایک دن ایسا ہوا کہ واثق کے سامنے امام نسائی اور امام ابو داود کے استاد ابو عبدالرحمٰن ازدی کو بیڑیاں ڈال کر لایا گیا مگر اُنہوں نے ایسی گفتگو کی کہ واثق کو اِس معاملے میں شک ہو گیا۔ اور پھر اُس کا رویہ خلقِ قرآن کے حوالے سے پُرتشدد نہ رہا۔ جب اُس کا انتقال ہو گیا تو متوکل خلیفہ بن گیا، اُس کا تو سرے سے اِس مسئلے سے کچھ لینا دینا ہی نہیں تھا اور وہ امام احمد بن حنبلؒ کو اپنے اچھے برتاؤ سے اپنے دام میں لانا چاہتا تھا۔ اشرفیاں بھیجیں۔ اشرفیاں دیکھ کر امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ اشرفیوں کے یہ تھیلے میرے لئے جیل کے کوڑوں سے زیادہ بڑی آزمائش ہیں۔ یہ تمام داستان محض داستان نہیں ہے بلکہ آج درست رائے اختیار کرنے والے افراد کے لئے ایک روشن مثال ہے کہ جب حق بات کرتے ہو، طاقت سے ٹکراتے ہو تو ابتلاء کا سامنا کرنا پڑے گا، اَن گنت الزامات لگائے جائیں گے، کچھ لوگ سجادہ اسحاق اور القواریری کی مانند حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں کچھ محمد بن نوح کی طرح قید و بند میں ہی جان جان آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں اور کچھ امام احمد بن حنبلؒ کی مانند تمام سختیاں برداشت کرنے کے بعد اپنی کامیابیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ شرط صرف استقامت کی ہے۔

تازہ ترین