• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں نسل پرست اور متلون مزاج ری پبلکن صدر ٹرمپ کی شکست اور نسبتاً اعتدال پسند ڈیموکریٹک صدر جوبائیڈن کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے لئے امریکی پالیسیوں میں معقولیت آنے خصوصاً عالمی امن جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حق میں مدبرانہ اقدامات کی جو توقع کی جارہی ہے اُس کا صحیح اندازہ تو اُس وقت لگایا جائے گا جب اہم عہدوں پر تقرریاں مکمل ہونے کے بعد نئی انتظامیہ کی شکل و صورت واضح ہوگی اور نئے عہدیداروں کی سوچ اور رویے کا پتا چلے گا تاہم امریکی صدر، اُن کے ساتھ منتخب ہونے والی بھارتی پسِ منظر کی نائب صدر کملا ہیرس، سیاہ فام وزیر دفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن اور وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے اب تک جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اُن سے کم سے کم پاکستان کے بارے میں اُن کی مثبت سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے قدامت پسند ری پبلکن صدور کے مقابلے میں روشن خیال ڈیموکریٹ امریکی سربراہان پاکستان کے حق میں نرم گوشہ رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ جو بائیڈن ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں جو صدر باراک اوباما کے ساتھ جب نائب صدر تھے تو دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان کے حالات اور اِس خطے میں اُسے درپیش چیلنجوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اِس لئے پاکستانی قوم اُن سے بہتر رویے کی توقع کر سکتی ہے۔ اُنہوں نے نئی امریکی انتظامیہ کے لئے اب تک جو تقرریاں کی ہیں اُن کا مثبت پہلو یہ ہے کہ نریندر مودی کی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے حامی بھارتی نژاد امریکیوں کو نظرانداز کرکے انہوں نے آزاد خیال لوگوں کا تقرر کیا ہے جن میں سے دو کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے اور وہ دونوں خواتین ہیں۔ اِس کا یہ مطلب لیا جارہا ہے کہ نئی امریکی حکومت کے دورانیے میں انسانی حقوق کے ادارے مقبوضہ کشمیر میں متحرک ہو سکتے ہیں۔ نئی انتظامیہ میں 20بھارت نژاد امریکیوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ہے۔ اُن کے مقابلے میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی تعداد کم ہے جس سے امریکہ میں مقیم 5لاکھ سے زائد پاکستانی مایوس ہوئے ہیں لیکن صدر جوبائیڈن سمیت اصل طاقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اُن کا ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں بھارت کی طرف رجحان نسبتاً کم بتایا جاتا ہے کیونکہ وہ اب تک پاک بھارت تعلقات اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر مثبت بیانات دیتے آئے ہیں جس سے سیاسی مبصرین کو اِس خطے میں قیامِ امن کی کوششوں کے حوالے سے امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا جو ذکر کیا گیا اُن میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال نمایاں تھی۔ وزیر خارجہ بلنکن نے مہم کے دوران کہا تھا کہ بائیڈن کو موقع ملا تو بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر اُٹھائیں گے۔ نائب صدر کملا ہیرس جن کے بھارتی پس منظر کی وجہ سے بھارت بہت خوش ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے لئے آئین کی دفعہ 370کی تنسیخ کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ کشمیری عوام دنیا میں تنہا نہیں ہیں صورتحال یہی رہی تو ہمیں مداخلت کرنا پڑ سکتی ہے۔ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بھی افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کر چکے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ میں دو کشمیریوں کی تقرری سے بھی یہ پیغام ملا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 70سال سے انسانی حقوق کی پامالی کا حل نکالنا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن امریکہ ماضی میں غیر مشروط وفاداری کے باوجود مشکل وقت میں پاکستان کے کام نہیں آیا اور مستقبل میں بھی اس سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں، اُس کے ساتھ شراکت داری کے حوالے سے ہر قدم سوچ سمجھ کر اور قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر اُٹھانا چاہئے۔

تازہ ترین