• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی جانب سے معاشی حالات کی بہتری کو بنیادی مقصد بتاتے ہوئے آئندہ تین برسوں میں 47اداروں کی نجکاری کا جو عندیہ دیا گیا ہے اُس کے معیشت پر کس قدر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ماضی میں نجی تحویل میں دیے گئے بیشتر اداروں کی موجودہ کارکردگی سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح بےدریغ منافع کمانے کی حکمت عملی اپنائی گئی اور عام صارف کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا۔ سرمایہ دارانہ کمپنیوں کے پیش نظر عوامی مفاد نہیں بلکہ اپنے سرمائے میں اضافہ کرنا ہوتا ہے، اس لئے چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ نجکاری کمیشن کی دستاویزات کے مطابق قومی اداروں کی نجکاری کا عمل دو مرحلوں پر مشتمل ہوگا، 47میں سے 19اداروں کی نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے جن پر مالی سال 2019-20پر کام شروع کیا گیا تھا اور رواں مالی سال 2020-21پر کام جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ اِس وقت پاکستان اسٹیل ملز، ایس ایم ایز، پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، سروسز انٹرنیشنل ہوٹل اور ایل این جی پلانٹس سمیت 12ادارے نجکاری کے عمل میں ایڈوانس اسٹیج پر ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کی یہ عجیب روش رہی ہے کہ جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو عوامی مفادات کا نعرہ بلند کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آتے ہی اُن کا رویہ مختلف ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی بھی ماضی میں نجکاری پالیسی کی بھرپور مخالف رہی تاہم برسر اقتدار آنے کے بعد بڑی تعداد میں اداروں کی نجکاری کا عندیہ دیا جا رہا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ موثر نگرانی کا نظام وضع کرتے ہوئے اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے تاکہ عام آدمی کے حقوق کا بھی تحفظ رہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین