وہ مایوس تھا اور جب یہ سوچتا کہ اس ملک میں نوازشریف، محترمہ بینظیربھٹو، میرظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز وزیراعظم بن سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟ وہ غصے میں لال پیلا ہو جاتا،وہ تو ہیرو بھی ہے اور ان سب سے زیادہ اپنے پرستار بھی رکھتا ہے‘ اس لئے اب کسی بھی طرح اس نے بس وزیراعظم بننے کی ٹھان لی مگر جب اس کی جماعت کا بانی رکن اور قریبی ساتھی اکبر ایس بابر کہتا کہ خان صاحب آپ وہ پائلٹ ہیں جو جس وقت بھی جہاز اڑائیں گے‘ اس کو کریش کر دیں گے‘ پارٹی کی نچلی قیادت پارٹی فنڈنگ کے پیسوں میں کرپشن کرتی ہے لیکن اس شکایت پر خان صاحب کہتے ’’پارٹی کو آگے بڑھنے دو‘‘۔
تحریک انصاف کے بانی ارکان میں شامل اکبر ایس بابر نے 2011میں عمران خان کو ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ہونے والی فنڈنگ کے بارے میں آگاہ کیا۔ پارٹی چیئرمین عمران خان کو اکبر ایس بابر کی جانب سے سات صفحات پر مشتمل خط بھی لکھا گیا جس میں پارٹی ملازمین کے نام پر کھولے جانے والے خفیہ بینک اکائونٹس اور ان میں بیرون ملک سے آنے والے پیسے کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا بلکہ پارٹی میں ہونے والی دیگر بدعنوانیوں اور مفادات کے تصادم سے متعلق سرگرمیوں بارے بھی انکشاف کیا جن میں سینئر رہنماؤں کی جانب سے رئیل اسٹیٹ بزنس میں پیسہ لگانے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اکبر ایس بابر نے واضح کیا تھا کہ سینئر قیادت کی جانب سے جس کا بیرون ممالک سے آنے والے پیسے پر کنٹرول ہے، رئیل اسٹیٹ کاروبار میں شراکت داری، مفادات کے ٹکرائو کی بدترین مثال ہے۔ اکبر ایس بابر کی جانب سے پارٹی چیئرمین عمران خان کو لکھے گئے خط سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس پبلک کرنے سے تین برس قبل تک وہ پارٹی کے اندر بھی اس معاملے پر آواز اٹھاتے رہے تھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ 2014میں الیکشن کمیشن میں لے گئے۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ برطانیہ اور امریکہ میں پی ٹی آئی کے لیے چندہ اکھٹا کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبلٹیز کمپنیاں (ایل ایل سی) بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقوم تحریک انصاف میں کام کرنے والے ملازمین کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئیں جب کہ عرب ممالک سے ہنڈی کے ذریعے پارٹی فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔ 190 کے قریب غیر ملکی فرمز اور 83کے قریب اسرائیلی اور بھارتی شہری عمران خان کو فنڈز دیتے رہے۔
تحریک انصاف اکبر ایس بابر کی اس درخواست کے خلاف تاخیری حربے استعمال کرنے کے لئے بار بارعدالتوں کا رخ بھی کرتی رہی۔ اکبر ایس بابر تو یہ بھی کہتے رہے کہ انھیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا ہے کہ باز آجائو مگر وہ بھی اپنی دھن کے پکے ہیں اور اہداف کےحصول کے لئے طویل قانونی جنگ لڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ احتساب کےنام پردوسروں سےجواب مانگنے والی تحریک انصاف نے اپنے 26 میں سے صرف 8 اکاؤنٹس ڈکلیئر کر رکھے ہیں اور 18 خفیہ اکائونٹس سے متعلق ابھی تک جواب نہیں دے سکی۔
پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 کے مطابق کوئی سیاسی جماعت کسی غیر ملکی شخص، ادارے یا تھنک ٹینک سے فنڈنگ نہیں لے سکتی اور غیر ملکی فنڈنگ ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن صرف رقم کی ضبطگی کے احکامات دے سکتا ہے‘ کسی جماعت کو تحلیل نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن میں کیس ہارنے پر تحریک انصاف کے لئے چند لاکھ ڈالر ضبط بھی ہو جائیں تو بظاہر حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ اتنی سادہ بات بھی نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کے ایسے کسی فیصلے کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے والی اپوزیشن یہ معاملہ سپریم کورٹ لے کرجائے گی اور سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ ثابت ہونے کے بعد جماعت کو تحلیل کرنے کی سفارش کر سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکانِ اسمبلی نااہل ہو جائیں گے اور پارٹی سربراہ بھی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہیں رہے گا اور حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا، منی لانڈرنگ جیسے الزام ثابت ہونے کے بعد امریکہ میں بھی اس مقصد کے لئے قائم کی گئی کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔
ہمارے خطے میں ایک روایت مشہور ہے کہ ایک بڑے مولانا صاحب سے جب چندہ دینے والے کسی شخص نے چندے کا حساب مانگا تو وہ غصے میں بولے کہ میں کوئی ہندو بنیا نہیں جو آپ کے چندوں کا حساب رکھتا پھروںجنہیں اعتبار ہے وہ چندہ دیں جنہیں اعتبارنہیں وہ چندہ نہ دیں۔ دنیا بھر میں چندہ لینے کے ماہر مانے جانے والے اور پھر اسے اپنے فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنے والے عمران خان ایسے کسی فارن فنڈنگ کیس میں کیسے پھنس سکتے ہیں؟ یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوتی، وہ تو یہ کام گزشتہ تین دہائیوں سے شوکت خانم ہسپتال اور نمل جیسے منصوبوں کے لئے کرتے چلے آ رہے تھے اور نہ ہی وہ کسی کو اس بارے کبھی جواب دہ تھے۔ اب ایسا کیا ہو گیا کہ چھ سال سے دبا ہوا معاملہ اچانک اہمیت اختیار کر گیا۔ حکومت گرانے کی تاریخیں دینے اور لانگ مارچ کی دھمکیاں لگانے والی پی ڈی ایم بھی الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئی۔ ایسی صورت حال میں جب آپ کسی معاملے کی گہرائی سمجھنے سے قاصر ہوں تو اندازے اور تِیر تُکّا لگانے سے بہتر ہے کہ مشرف دور کے پہلے وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی مرحوم کے اس تاریخی فقرے کو ذہن میں لے آئیں جو انہوں نے وزارتِ عظمیٰ چھن جانے کے بعد جیو نیوزکے مشہور پروگرام ’’جوابدہ‘‘ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے بولا تھا، "جو کسی کو لا سکتے ہیں وہ گھر بھی بھیج سکتے ہیں۔" یہ تاریخی فقرہ پروگرام ’’جوابدہ‘‘ کے پرومو میں کئی سال تک چلتا رہا اسی لئے اب بھی اس فقرے کی گونج اردگرد سنائی دے رہی ہے۔