راچڈیل (نمائندہ جنگ)عالمی وباء کورونا وائرس کے خلاف متعارف کرائی جانیوالی ویکسین پر یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان سرد جنگ چھڑ گئی ہے جبکہ برطانیہ میں کورونا وائرس کی دوسری خطرناک لہر کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک عالمی وباء سے 1لاکھ 1887افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔تفصیلات کے مطابق یورپی یونین اور برطانیہ کے مابین ویکسین کے معاملے پر تنائو بڑھا جا رہا ہے۔ یورپی سیاست دانوں نے متنبہ کیا کہ برطانیہ کورونا ویکسین کے حوالے سے یورپی ممالک کو نظر انداز کرنے کی صورت میں مسائل کا سامنا کرسکتا ہے۔ استرا زینیکا اور فائزر نے لاکھوں خوراکیں وصول کرنے کے لئے یورپی یونین کی کوششوں سے انکار کیا کیونکہ اس کی ویکسین کے خاتمے سے یورپ میں افراتفری آنے کا خطرہ ہے۔ یورپی یونین کے سربراہان چاہتے ہیں کہ اسٹافورڈ شائر اور آکسفورڈ شائر میں بنی آکسفورڈ کی مزیدویکسین کو براعظم میں کمی کو پورا کرنے کے لئے ان کے سپرد کیا جائے۔ یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ اینگلو سویڈش فرم اپنے بلجیم سائٹ پر پیداواری امور کے باوجود اپنی معاہدہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پابند ہے۔ ایم پیز نے متنبہ کیا کہ برطانیہ یورپی یونین کو انکار کرنے کی صورت میں مسائل اور تکلیف کا سامنا کرےگا۔ بلاک کے ہیلتھ کمشنر نے اصرار کیا کہ برطانیہ کو ترجیح نہیں ملنی چاہیے حالانکہ اس نے برسلز سے تین ماہ قبل اسٹر زینیکا کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔سٹیلا کیاریاکائیڈس نے کہاہم پہلے آئیے پہلے پائیے کے فارمولے کی منطق کو مستر دکرتے ہیں یہ کسی قصاب کی دکان پر چل سکتا ہے مگر معاہدوں میں ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے خریداری کے معاہدوں کیلئے مناسب معقولہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کابینہ کے وزیر مائیکل گوؤ نے کہا کہ برطانیہ یورپی یونین کیساتھ ویکسی نیشن کے معاملے پر تبادلہ خیال کر ے گا ویکسی نیشن پروگرام پر اتفاق اور یقین دہانی کرائی گئی ہے کچھ عرصہ قبل اس کی فراہمی طے کی گئی تھی اور ہم اس بات کو یقینی بنا ئیں گے کہ ویکسین پروگرام بالکل اسی طرح آگے بڑھے جس طرح منصوبہ بنایا گیا تھا ہم یورپ میں اپنے دوستوں سے بات کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کی مدد کرسکیں لیکن واقعی اہم بات یہ یقینی بنانا ہے کہ ہمارا اپنا ویکسی نیشن پروگرام مرتب شدہ منصوبہ بندی کیساتھ پیش قدمی کرتا رہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ رواں سال کیلئے برطانیہ کے پاس کافی ویکسین موجود ہے اور وہ اپنے اہداف کو پورا کرسکتا ہے بلکہ دیگر ممالک کو بھی فراہم کرسکتا ہے۔ ایک جرمن ایم ای پی نے انتباہ کیا ہے کہ جب تک وہ یورپی یونین کے مطالبات پر راضی نہیں ہوتا برطا نیہ تکلیف میں رہے گا۔ پیٹر لیس جو انجیلا مرکل کی سی ڈی یو پارٹی میں ہیں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ برسلز بیلفیم میں بنائے جانے والے فائزر / بائیو ٹیک ٹیک کی کھیپ کو روک سکتا ہے۔ بایو ٹیک ٹیک جو صرف یورپ میں تیار کی جاتی ہے اور یہ جرمنی کی ریاست اور یورپی یونین کے پیسوں کی مدد سے تیار کی گئی کو برطانیہ بھیج دیا گیا مگر اس فیصلے کو یورپی شہری قبول نہیں کریں گے۔ اگر برطانیہ یورپی لوگوں کو دوسرے درجے کادرجہ دیتا ہے تو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑیگادوسری طرف وزیراعظم بورس جانسن نے یورپی یونین کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اپنی فراہمی اور معاہدوں پر بہت اعتماد ہے اور ہم اسی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں۔دوسری جانب برطانیہ میں کورونا وائرس کی دوسری خطرناک لہر کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک عالمی وباء سے 1لاکھ 1887افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں انفیکشن کا شکار ہو نے والے افراد کی تعداد 37لاکھ15ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ملک بھر میں کورونا کیخلاف و یکسی نیشن کے باوجودروزانہ کی بنیاد پر تقریبا 25ہزار سے زائد افراد انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں ہلاک ہو نےالوں کی شرح بھی 15سے 17سو کے درمیان ہے۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق 1725افراد ایک دن میں کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہوئے ہیںدنیا بھر میں کارونا وائرس کی ہولناک وباء ابتک 21لاکھ 62ہزار 333سے زائد افراد کو نگل چکی ہے جبکہ 10کروڑ 4لاکھ 41ہزار 945سے زائد افراد انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں افراد وینٹی لیٹرز پر ہیں۔برطانیہ کو انفیکشن سے بچانے کیلئے ائیر پورٹس سے ملحقہ ہوٹلوں میں مسافروں کو قرنطین کرنے کے منصوبے پر عوام کا ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ نیکولا اسٹرجن نے کہا کہ ہوٹلوں میں قرنطین کا منصوبہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا مگر وائرس سے بچائو کیلئے یہ اہمیت کا حامل ہے وزیر اعظم کی طرف سے 22مختلف ممالک سے برطانیہ آ نےالے افراد کیلئے قرنطین کی پالیسی لاگو کرنے پر آمادگی کا اظہار اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ وزیر اعظم انتہائی فکر مند اور برطانیہ کو انفیکشن کے پھیلائو سے بچانے کیلئے سرگرم ہیں تاہم ائیر لائن مالکان نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھائے ہیں اور اس سلسلہ میں وزیر اعظم بورس جانسن کو ایک خط بھی تحریر کیا ہے بعض حلقوں نے جنوبی افریقہ ‘ برازیل ’ اور پرتگال جیسے ہاٹ سپاٹ علاقوں کے علاوہ دیگر ممالک کے لئے اس پالیسی کو انتہائی سخت اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔ انگلینڈ میں تیسرے قومی لاک ڈائون کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کیلئے فروری کے وسط میں حالات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا انفیکشن کی شدت میں کمی اور ہسپتالوں پر دبائو کم ہوگا اور وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے ویکسین کے اثرات کو دیکھ کر مستقبل کیلئے لائحہ عمل کا اعلان کیا جا ئے گاکمپیونٹیز سیکرٹری رابرٹ جیزک نے کہا کہ حکومت اگر لاک ڈائون سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گی تو ٹیئرسسٹم کے نفاذ کا منصوبہ بنایا جا ئے گا۔یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے پروفیسر مارک وول ہاؤس نے متنبہ کیا ہے کہ سائنسدانوں کو دوران تحقیق ایسے وائرس کا بھی سامنا ہوا ہے جو دو سال بعد اپنی شکل تبدیل کرسکتے ہیں۔کوئی مزید وباء کب آئے گی اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر عوام کواحتیاطی تدابیر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔