• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آج آپ سے اپنی بپتا بیان کرناچاہتا ہوں۔ بہت پریشان ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ کہاں جائوں؟کس سے اپنا دکھ درد بانٹوں؟ میں خود وکیل نہیں ہوں۔ اس لیے اپنا کیس کسی عدالت میں لڑ نہیں سکتا۔کوئی وکیل میرا کیس لینا نہیں چاہتا۔تہمتوں اور ملامتوں سے مجھے بچانا نہیں چاہتا۔ پولیس تھانوں کے افسران میری تحریری شکایت قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ آخرکار میں نے فیصلہ کیاہے کہ میں اپنی بپتا آپ کو سنائوں گا۔ زیادتی اور الزام تراشی کی بھی کوئی حدہوتی ہے۔ بہتان تراشی کرنے والوں نے تمام حدیں پارکردی ہیں۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ میں آپ سے رجوع کروں۔میں جانتا ہوں کہ آپ میرے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ پھربھی میں اپنی بپتا آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ سنا ہے کہ جونہیں پڑھتے ان کو کبھی ایسے لوگوں پر فوقیت حاصل نہیں ہوتی جو پڑھتے ہیں۔ اور جو پڑھتے ہیں وہ دور تک دیکھ سکتے ہیں۔

آپ تو جانتے ہیں کہ میں جھوٹ لکھتا ہوں۔ جھوٹ سنتا ہوں اور جھوٹ دھڑلے سے بولتا ہوں۔میں اپنے عیب کسی سے نہیں چھپاتا۔ وزن والی چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ بھاری بھرکم چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو انتہائی بھاری ہونے کے باوجود دکھائی نہیں دیتیں۔میرے لیے چھپانے کا عمل بے انتہا بھاری ہوتا ہے۔ ایسا وزن میں نہ اٹھا سکتا ہوں اور نہ ہی سہارسکتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں جوکام کرتا ہوں، کھلے عام کرتا ہوں۔ کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔ چھپاکر کام کرنے میں بڑا وزن ہوتا ہے۔ میں اگر جیب کترا ہوتا، توپھر ماسوا اس بدنصیب شخص کے جس کی جیب میں کاٹتا، میں کسی سے نہیں چھپاتا کہ میں جیب کترا ہوں۔ اگر میں چور اچکا ہوتا تو اپنے پیشے سے متعلق کسی بنی بشر سے کچھ نہیں چھپاتا۔بڑا بوجھ ہوتا ہے لوگوں سے کچھ چھپانے میں۔ اگر ڈاکے ڈالتا تو کھلم کھلا ڈالتا۔ چھپانا چاہے کسی نوعیت کا ہو، بڑا وزنی ہوتا ہے۔ اس لیے میں کوئی کام چھپ کرنہیں کرتا۔ سرکاری ملازمت کے دوران دوستوں سے خط وکتابت کے علاوہ افسانے، کالم اور ناول میں سرکاری کاغذوں پر لکھتا تھا۔ سرکاری قلم اور دوات بھی کام میں لاتا تھا یعنی استعمال کرتا تھا۔ پبلشرز اور اخباروں کو تحریری مواد سرکاری لفافوں میں بند کرکے، سرکاری ٹکٹ لگا کر بھیجتا تھا۔ یہ کام میں دفتر کے اوقات کے دوران کرتا تھا اور سب کے سامنے کرتا تھا۔ ملازمت کے قوانین میں کہیں بھی لکھا ہوا نہیں ہے کہ آپ سرکاری کاغذوں پر غزل، نظم، گیت ، افسانے، ڈرامے اور لولیٹرLove Letterنہیں لکھ سکتے۔ ایسے لوگ بڑے پریشان دکھائی دیتے ہیں جو اپنے وجود میں بہت سے راز، بہت سی باتیں چھپائے پھرتے ہیں۔ بہت پریشان رہتے ہیں۔ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہیں نیند نہیں آتی۔ نیند آور گولیاں کھاتے ہیں۔ پھربھی رات بھر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ جب چاہوں میں سو سکتا ہوں۔ جب چاہوں میں گا سکتا ہوں۔ جب چاہوں میںہنس سکتا ہوں۔ جب چاہوں میں روسکتا ہوں۔ یہ سب آپ کے ساتھ تب ہوتا ہے جب آپ بوجھ تلے دبے ہوئے نہیں ہوتے۔ چھپ چھپاکر کیے ہوئے کاموں کی پردہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے نہیں ہوتے۔ آپ میری طرح خوش باش تب رہ سکتے ہیں جب آپ ظاہری اور باطنی بوجھ سے مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں۔

سردست میں پریشان اس لیے ہوں کہ ایک آزاد منش اور اس کے ہم نوا مجھے چور اور ڈاکو کہنے سے باز نہیں آتے۔میں جب ان سے کہتا ہوں، بلکہ پوچھتا ہوں کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ میں نے کسی کی چوری کی ہے؟ کیا کسی بھلےمانس نے آپ کے پاس آکر میری شکایت کی ہے کہ میرے پاس مال ملکیت کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ جائز نہیں ہے؟ وہ دولت میںنے اس سے ہتھیائی ہوئی ہے؟ میں نے ملک کے سب سے بڑے خزانچی سے لیکر، چھوٹے چھوٹے خزانچیوں سے پوچھا ہے کہ آپ کے خزانے پرکبھی ڈاکہ پڑا تھا کہ آپ کے خزانے خالی ہوگئے تھے؟ یہ بات میں نے ان سے اس لیے پوچھی تھی کہ میرے پاس اللہ کا دیا اتنا کچھ ہے کہ ملک کے کسی بینک کے پاس اس سے آدھے اثاثے بھی نہیں ہیں۔جو بات میں آپ کے گوش گزارکرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے آزاد منش اور اس کا ٹولا کھلم کھلا مجھے چور اور ڈاکو کہتے پھرتے ہیں۔ کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ جب تک عدالتیں کسی کوچور اور ڈاکو ثابت نہیں کرتیں، تب تک آپ کسی کو ببانگ دہل چور اور ڈاکو نہیں کہہ سکتے۔

آج آپ قارئین کے توسط سے آزاد منش اور اس کے ٹولے کو بتادینا چاہتا ہوں کہ میں امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں جوا کھیلتا ہوں۔ میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والا جواری ہوں۔ مجھے پرنس آف ویگاس کہتے ہیں۔ اور پھر میں دبئی اور دیگر عرب ممالک میں گھوڑا دوڑRaceکھیلتا ہوں۔ اربوں مالیت کے میرے پاس نایاب گھوڑے ہیں۔ مجھے آپ کے لٹے پٹے پھٹیچر بینکوں کو لوٹنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ چور ڈاکو والی راگنی اب بند ہونی چاہئے۔ آخرمیں آزاد ٹولے کو تھینکس کہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ملک بھر میں میگا مال اور پلازے بنانے کے بیشمار پروجیکٹ شروع کردیے ہیں۔ آپ کے لوگوں نے مجھ سے ذرائع آمدن کا نہیں پوچھا ہے۔ ذرائع آمدن سے مکمل چھوٹ ملنے کے بعد مجھ جیسے سینکڑوں لوگ پاکستان کی کنسٹرکشن انڈسٹری میں اتر آئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو میں جانتا پہچانتا ہوں۔ ایک صاحب انسانوں کا بیوپارکرتا ہےHuman Trafficking۔میں اپنے پروجیکٹس میں مسجد یں بھی بنوا رہا ہوں۔ اب آپ قارئین مجھے بتائیں کہ کیا میں جوئے کی آمدنی سے مسجد بناسکتا ہوں؟۔

تازہ ترین