• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگ کہتے ہیں، پتہ نہیں صحیح یا غلط ، کہ مارشل لا ایک ایسا عذاب ہے کہ جہاں ایک بار لگ جائے، بار بار لگتا ہے۔تازہ مثال برما کی ہے جس کا جدید نام میانمار ہے، جہاں انتخابات ہوئے تھے اور وہی ہوا جو نئے زمانے کا چلن بنتا جارہا ہے۔الیکشن ہوئے، بر سر اقتدار جماعت ڈنکے کی چوٹ پر جیتی اور ابھی اس کی کامیابی کاجشن شروع بھی نہیںہوا تھا کہ کہیں سے وہی جانا پہچانا نعرہ بلند ہوا ۔ یہی کہ ’’انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے‘‘۔امریکہ کی مثال کے بعد دنیا کو اس نعرے کا عادی ہوکر اسے یوں جھٹک دینا چاہئے جیسے کان پر بیٹھی ہوئی مکھی کو۔مگر ہوا یہ کہ فوج اس معاملے میں سنجیدہ ہوگئی اور اس نے اُٹھ کر آئین کو معطل کیا، ملک میں ایمرجنسی نافذ کی، حکمرانوں کو نظر بند کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے برمامیں نہیںمعلوم کون سی مرتبہ مارشل لا لگ گیا۔لیکن اس بار ایک نیا منظر اُبھرا ہے۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جمہوریت کے یوں روندے جانے پرملک میں کچھ نہ کچھ عناصر ایسے ضرور ہوتے ہیں جو مارشل لا کے حامی ہوتے ہیں اور فوج کی آواز میں آواز ملا نے لگتے ہیں۔ لیکن برما میں ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ ہم نے یہ منظر پہلی بار دیکھا ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور فوج کو منظر سے ہٹانے کے مطالبہ کر رہے ہیں۔ ملک کی نہایت مقبول رہنما آنگ سان سوچی فوج کی تحویل میں ہیں اور عوام ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ فوج نے وہی جانا پہچانا اعلان کیا ہے کہ یہ مارشل لا بس کچھ عرصے کے لئے لگایا گیا ہے، اس کے بعد جمہوری نظام دھوم مچاتا ہوا لوٹ آئے گا۔سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کی بھونڈی تاویلیں سنتے سنتے ہمارے تو کان پک گئے ہیں۔

ہاں کسی گوشے سے اٹھنے والی ایک آواز ہم نے بھی کان لگا کر سنی ہے۔ وہ جو میں نے شروع میں کہا، مارشل لا بھی ایک عذاب ہے۔ برما والوں نے ملک میں طویل عرصے سے آباد مسلمانوں کو جس طرح اجاڑا اور برباد کیا ، ان کی املا ک کو جس بے دردی سے پھونکا اور ان کی بہو بیٹیوں کی جس طرح بے حرمتی کی، اس کے بعد اس ملک پر جو عذاب بھی آئے کم ہوگا۔ عقل حیران ہے کہ جس بودھ قوم کا عقیدہ ہو کہ پاؤں تلے آکر کیڑے مکوڑے کا مرنا بھی گناہ ہے، جو قوم ناک پر کپڑا باندھتی ہو کہ کوئی اڑتا ہوا کیڑا ناک میں جاکر مر نہ جائے، اس قوم کی آنکھوں میں جب خون اترا تو اس نے سارا دھر م اورعقیدہ ایک طرف رکھا اور انسانی قدروں کواس بُری طرح پامال کیا کہ عموماً مسلمانوں سے ہمدردی نہ رکھنے والے ملک بھی اس درندگی پر چپ نہ رہ سکے۔وہی آنگ سان سوچی جو انسانی حقوق کی سب سے بڑی علم بردار بنتی تھیں، مسلمانوں پر ظلم توڑنے والوں کی طرف دار بن گئیں۔ انہیں امن کا عالمی ایوارڈ ملا تھا،ایوارڈ ینے والے بھی منہ چھپا کر بیٹھ رہے۔ خاتون کو برطانیہ کی ایک یونی ورسٹی نے بڑا اعزاز دیا تھاجوواپس لے لیا گیا۔ آنگ سان سو چی نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا بلکہ بودھ آبادی میں ان کی مقبولیت بڑھتی گئی۔اُدھر بے گھر ہوکر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے تباہ حال مسلمانوں کے مصائب بڑھتے گئے۔ عالمی اداروں نے ان کی کفالت میں ہاتھ بٹایا مگر بنگلہ دیش کو بھی یوں سیلاب کی طرح آجانے والے پناہ گزین قابل قبول نہ تھے ۔ اب انہیں کشتیوں میں بھر بھر کر کسی دور دراز جزیرے میں بھیجا جارہا ہے جہاں وہ باقی دنیا سے کٹ کر زندگی گزاریں گے۔اب کوئی اسے ضعیف الاعتقادی کہے یا کچھ کہے، نسل انسانی پر جب بھی جبر کے پہاڑ توڑے گئے ہیں، قدرت نے اس کی سزا ضرور دی ہے۔ برما والے اس بات کو مانیں یا نہ مانیں، اجڑے ہوئے کنبوں کی آہیں رنگ لائیں گی اور ضرور لائیں گی۔ اچھا بھلا ملک جس کی بے پناہ لمبی سرحد چین سے ملتی ہے اور چین جس پر مہربانیاں کرتا رہا ہے، اس ملک کو استحکام نصیب ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اس سرزمین میں دفن بادشاہِ ہند بہادر شاہ ظفر کی روح ایک بار دکھ سے کراہی تو ہوگی۔میانمار کے دارالحکومت رنگون میں ، جو اب ینگون کہلاتا ہے، کسی کو تو خیال آیا ہوگاکہ گوتم بدھ نے بھی برما کی طرف سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔

یہاں ایک بات غور کرنے کی ہے۔ یہ دنیا میں ہر طرف بے چینی سی کیوں ہے۔ یورپ کے ملکوں میں لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ لوگوں کے روزگار ختم ہوئے، نوجوانوں کی شامیں غارت ہوئیں، گھروں میں محصور عورتیں اور بچے ذہنی اور اعصابی الجھنوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ جنوبی امریکہ میں کتنی ہی حکومتیں ڈگمگا رہی ہیں، افریقہ تو سدا سے تاریک بر اعظم کہلاتا ہے سو اس کی تاریکی کسی حال کم نہیں ہوتی اور ہر طرف سے خانہ جنگیوں کی خبریں آرہی ہیں۔ سارا نظام قبیلوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر قبیلہ دوسرے کے خون کا پیاسا ہے۔ہندوستان میں کسانوں کے پہلومیں ظالمانہ قوانین کا جو کانٹا چبھ رہاہے اس پر محنت کشوں کا طبقہ مچل اٹھا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہٹ دھرم حکومت اور جبر تلے کچلے کسان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں۔ ہزارہا کسان دارالحکومت پہنچ گیا ہے اور نہیں معلوم یہ محاذ کیا شکل اختیار کرے گا۔

اس جا بجا پھیلے ہوئے اضطراب کے ساتھ وہ قیامت بھی نتھی ہے جسے کووڈ 19کہا جارہا ہے۔ وہ ایک بلا خیز جرثومہ خدا جانے کہاں سے پھوٹا اور کیوں کر دنیا کے گوشے گوشے سے زندگی کی رمق کو چھین لینے پر تُلا ہوا ہے۔ذہن میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے۔کیا قانون پر سے انسان کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے؟کیا انصاف کی شبیہ دھندلی پڑتی جارہی ہے۔او رکیا انسانی دردمندی دنیا سے اُٹھ جائے گی؟ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا، اب کیوں ہوگا۔کیا یہ کوئی نرالی دنیا ہے؟

تازہ ترین