آزاد کشمیر کو حسین وادیوں، سرسبز جنگلات اور دلفریب دریاؤں کے باعث جنت نظیر وادی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ قدیم تاریخی ورثے کا حامل ہے۔ اسٹریٹجک بنیادوں پر مختلف حکمرانوں نے یہاں کئی قلعے تعمیر کروائے، جن میں سے ایک آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کا تاریخی لال قلعہ بھی ہے۔ اسے مظفرآباد قلعہ اور رتہ قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ مظفر آباد میں دریائے نیلم (کشن گنگا) کے کنارے کشمیر کے چک حکمرانوں نے 1549ء میں اس قلعے کی بنیاد رکھی۔ مغل اور چک حکمرانوں کے مابین ریاست کشمیر کی سرحدوں پر فوجی شورشیں معمول کی بات تھی۔
اس کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے چک حکمرانوں نے سرحدوں اور عوام کی حفاظت کی غرض سے دفاعی حصار کی تعمیر کا فیصلہ کیا تاکہ حملہ آوروں سے شہر کو محفوظ رکھا جاسکے۔ تینوں اطراف سے دریائے کشن گنگا (نیلم) کی قدرتی حدود اور ایک جانب سے خشکی کا راستہ ہونے کی بناء پر سولہویں صدی میں اس جگہ کو قلعے کی تعمیر کے لیے موزوں ترین قرار دیا گیا اور اس کی موزونیت بعداز تکمیل شہر پر ہونے والے حملوں کے جواب میں دفاع کی صورت میں درست ثابت بھی ہوئی۔ اس کا تین اطراف سے دریائے کشن گنگا (نیلم) میں گھرا ہونا دفاعی لحاظ سے انتہائی کارآمد رہا۔
سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والا مظفرآباد کا تاریخی لال قلعہ برصغیر کے مختلف حکمرانوں کے عروج و زوال دیکھنے کے بعد آج بھی شان و شوکت سے ایستادہ ہے۔ اس کی تعمیر چک دور کے کاریگروں کا عظیم شاہکار اور ہنرمندوں کی مہارت کی عکاس ہے۔ تعمیر کے وقت لال قلعے کا رقبہ 59کنال تھا اور اس کی تعمیر میں دریا کا گول پتھر استعمال کیا گیا۔ چک دور کے بعد جب 1587ء میں مغل حکمرانوں نے ریاست کشمیر کی باگ ڈور سنبھالی تو لال قلعے کی دفاعی حیثیت قدرے کم ہوگئی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مغل حکمرانوں کی توجہ اُس وقت کابل، بخارا اور بدخشاں کی جانب تھی۔ لہٰذا اس قلعے کو شاہی رہائش گاہ کی حیثیت دے دی گئی اور مغلوں کے دورہ کشمیر کے دوران اس قلعے کو پڑاؤ کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا۔ تاہم، درانی عہد میں لال قلعے کی دفاعی اہمیت پھر سے دوچند ہوگئی اور اس دور میں قلعے کی توسیع اور مضبوطی کا کام کیا گیا جبکہ سلطان مظفر خان (جن کے نام پر مظفرآباد شہر ہے)نے 1646ء میں بالآخر اس کی توسیع مکمل کی۔
ڈوگرہ دور میں مہاراجہ گلاب سنگھ اور مہاراجہ رنبیر سنگھ نے بھی مظفرآباد کی سیاسی و عسکری اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے ادوار میں قلعے کی ازسرِنو تعمیر کی۔ بتایا جاتا ہے کہ 1928ء میں ڈوگرہ حکمران اس قلعے کو چھوڑ گئے تھے۔ اس کے بعد کافی عرصے تک لال قلعہ بند پڑا رہا اور پھر اسے محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ آزاد جموں و کشمیر کے حوالے کردیا گیا۔ محکمے نے اس کی بحالی کا کام کیا اور پھر اسے عوام کے لیے کھول دیا۔ 1992ء میں آنے والے سیلاب اور 2005ء کے زلزلے میں اس قلعے کو کافی نقصان پہنچا اور اس کا بہت بڑا حصہ منہدم ہوگیا۔
اس کے بچ جانے والے حصے میں تین بڑے صحن ہیں۔ تاہم، قلعے کے بیشتر کمرے دریا برد ہو چکے ہیں جبکہ باقی رہ جانے والے کمروں کی محض ایک یا دو دیواریں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ اس میں فوجیوں کے لیے بیرکس بھی بنائی گئی تھیں۔ قلعے کے شمالی حصے میں ٹیرس بنائے گئے تھے جہاں سے سیڑھیاں نیچے موجود دریا کنارے جاتی تھیں۔ تاہم، قلعے کے شمالی حصے کا زیادہ تر حصہ دریا کی تندو تیز لہروں کی نذر ہو چکا ہے۔ اس کے مشرقی حصے کو سیلاب کے خطرات سے محفوظ بنانے کے لیے کافی اقدامات کیے گئے تھے۔
قلعے میں آٹھ کمروں پر مشتمل قید خانے ہیں جو متعدد کال کوٹھڑیوں پر مشتمل ہیں، ان کی چھتیں اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ شمالی حصے میں کئی زیرِ زمین کمرے ایسے تھے جن کے بارے میں صرف چند مقامی لوگ ہی جانتے تھے۔ قلعے میں جا بجا سیاحوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ سیاحوں سے زیادہ مقامی لوگ لال قلعے کا رُخ کرتے ہیں۔
لال قلعے کے باہر ایک سرائے بھی ہوا کرتی تھی، 2005ء کے زلزلے میں تباہ ہونے کے بعد اسے دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا۔ قلعے میں موجود عجائب گھر بھی 2005ء کے زلزلے سے متاثر ہوا، یہاں موجود بعض نوادرات چوری کر لیے گئے جبکہ بچ جانے والی نادر اشیا ایک کمرے میں بند کردی گئیں۔2010ء کے سیلاب میں دریائے نیلم کا بہاؤ لال قلعے کی جانب ہونے کے بعد اس کے بچاؤ کے لیے ایک حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی۔
450سالہ تاریخ کا حامل مظفرآباد کا لال قلعہ موسمی تغیرات، سیلابوں، زلزلوں اور حکومت کی عدم توجہی کے باوجود آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ قلعے کے نگران محمد فاروق کے مطابق اس کی بحالی کے نقشے تیار ہیں اور جلد ہی محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے اس کی تعمیرنو کا آغاز کیا جائے گا۔