دُنیا میں اب بہت ترقی ہو چکی ہے۔ پہلے کی طرح سیاسی حلقوں کے موجودہ یا پھر مستقبل کے سیاسی اُمیدوارں کی ڈیوٹیاں لگا کر گاڑیاں بھر بھر کے اپنے متعلقہ ووٹرز کو سیاسی یا دیگر اِجتماعات میں اکٹھا کرنے کا سلسلہ بند ہو جانا چاہئے۔ ترقی یافتہ ممالک مثلاً برطانیہ وغیرہ میں تو زیادہ تر سیاسی سرگرمیاں کارنر میٹنگز کے ذریعے چلائی جاتی ہیں جن میں شرکت کرنے اور انتظام کرنے والوں کو کسی قسم کی تکلیف اور مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جب کہ پاکستان میں ہر روز خبروں میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا پھر مذہبی و دینی جماعتوں یا لوگوں کی جانب سے کسی نہ کسی جلسے یا جلوس کی خبر ضرور ہوتی ہے جسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کاش اگر اِن لوگوں کو کچھ عقل آجائے تو یہ سارا کا سارا پیسہ جو جلسے، جلوس کرنے میں خرچ کرتے ہیں، وہی پیسہ لوگوں کے فلاحی اور دیگر معاملات پرخرچ کرنا شروع کر دیں۔ ساتھ ہی کچھ پرنٹ شدہ مواد لوگوں میں تقسیم کردیں جن میں وہی بات کہہ دی جائے جو کہ جلسے اور جلوسوں میں کہنی ہے تو معاشرے میں فلاحی کام ترقی کی راہ پر آ سکتے ہیں اور غربت کا بہت جلد خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ جلسے جلوس آج کل کورونا وائرس کے باعث پیدا شُدہ صورتحال میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، اِس حوالے سے بھی جلسے اور جلوس کرنے والوں کو سوچ، سمجھ کر عوام کا اور جلسوں میں بُلائے گئے لوگوں کی زندگیوں کا کُچھ خیال کرنا چاہئے۔ اگر ان جلسے جلوسوں کا سارا پیسہ، جو لاکھوں کی صورت میں ایک جلسے یا جلوس میں خرچ کیا جاتا ہے، غریب اور نادار، افراد یا ضرورت مندوں کی ضروریات پورا کرنے پر تقسیم کرنے کا رواج پڑ جائے تو ایسے میں یہ ایک نیا رواج پروان چڑھ سکتا ہے، جس سے معاشرے میں ترقی اور غربت کے خاتمے کی کوشش سے سیاسی یا کسی اور میدان میں کامیابی حاصل کرکے عوام کے دل جیت کر اپنے سیاسی مقاصد یا دیگر اِقسام کے مقاصد حاصل کرنے کی دوڑ، سب کو ایک نئے دور میں داخل کر سکتی ہے، جس سے نہ صرف ملک ترقی کرے گا بلکہ معاشرہ بھی غربت، مہنگائی، بےروزگاری اور دیگر مسائل سے باہر نکل سکتا ہے۔ اِن شاء اللہ۔ اِس حوالے سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے حکومتی سطح پر سب سیاسی و مذہبی جماعتوں و دیگر لوگوں کیلئے کوئی قانون بنایا جا سکتا ہے جس (قانون) کے پاس ہونے کے بعد تمام سیاسی و دیگر جماعتوں کیلئے جلسے و جلوس کرنے پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے اور صرف کارنر میٹنگز کی اِجازت دی جا سکتی ہے تاکہ نہ صرف عوام بلکہ سیاسی و دیگر جماعتوں کی انرجی یعنی دماغی و جسمانی طاقت و قوت مثبت کاموں پر خرچ ہو سکے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ تمام کی تمام سیاسی جماعتیں آئے دِن جگہ جگہ، اپنے جلسے منعقد کرکے اپنی تقریروں میں ایک جیسی باتیں بار بار دہراتی رہتی ہیں۔ اب انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے۔ اب لوگ اپنے موبائل فون پر چوبیس گھنٹوں میں سے صرف آدھے گھنٹے میں سارے دن کی خبریں سُن یا پڑھ لیتے ہیں۔ ایسے میں ہر شہر، ہر ڈویژن میں جا جا کر اتنا پیسہ خرچ کر کے لوگوں کو جمع کرکے ہر بار وہی باتیں دہرانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے سیاسی منشور یا دیگر باتوں اور معاملات کو صرف اور صرف اپنی تقریروں کی مدد سے لوگوں تک پہنچانے کی بجائے کوئی نیا راستہ اور بہتر راستہ اِختیار کرنے کا سوچیں اور پھر عمل بھی کریں۔ مُجھے پوری اُمید ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت اِس مشورے پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئی وہ ضرور کامیابی کا راستہ حاصل کرلے گی۔ اِن شاء اللہ۔ یہی صورتحال مذہبی، دینی یا دیگر جلوس و اجتماعات کا انعقاد کرنے والوں کی بھی ہے۔ اگر یہ تمام لوگ بھی اپنے اپنے اجتماعات، جلوس، جلسے کرنے کی بجائے کوئی اور اصلاح، فلاحی کاموں کا راستہ اپنائیں تو یہ لوگ بھی پیسہ اِن اجتماعات میں ضائع کرنے کی بجائے دیگر فلاحی و نیک مقاصد میں اِستعمال کرسکتے ہیں جس سے نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوگا بلکہ اللہ کی ذات بھی راضی ہوگی۔ لوگوں کو اجتماعات میں اِکھٹا کرنے سے جو طاقت کا مظاہرہ کرنے کا عمل سب سیاسی و دیگر اِقسام کی جماعتوں نے اپنا رکھا ہے اس کو اگر فلاحی یا نیک کاموں میں صرف کریں تو یہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے اجتماعات میں نہ صرف پیسہ ضائع ہوتا ہے بلکہ شرکت کرنے والے لوگوں کا وقت اور انرجی دونوں ضائع ہوتے ہیں اور صحت کے بھی بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں۔ مُجھے پوری اُمید ہے کہ اگر جلسے، جلوسوں کے کرنے پر پابندی عائد کردی جائے، صرف چند سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں بلکہ سب کیلئے ہی، اور اس کے بدلے کارنر میٹنگز کا رواج ڈال دیا جائے اور یہ تمام پیسہ سیاسی و دیگر جماعتیں فلاحی و دیگر منصوبوں پرخرچ کریں تو معاشرے میں ترقیاتی اور فلاحی کاموں کے مقابلے کی ایک مثبت دوڑ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اور غربت کا خاتمہ بھی یقینی ہو سکتا ہے۔ اِن شاء اللہ!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)