اپوزیشن حکومت گرانے کےلئے احتجاجی جلسوں اوربلندبانگ دعوئوں میں ناکامی کے بعد اب مارچ میں لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دے چکی ہےمگرعوام کا سوال یہ ہےکہ بند کمرہ اجلاسوں اور عوامی جلسوں سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بے تخت کرنےکی مفاداتی وجذباتی حکمتِ عملی کاجواب کون دےگا؟ فوج مخالف نفرت انگیزبیانیہ تراشنےوالےارب پتی اپوزیشن لیڈرز کے انقلابی دعوئوں کا حساب کون دےگا؟ ویسے تو امیرکبیرحکمرانوں وطاقتوروں کی عوامی خدمت وکارکردگی کےحساب وجواب کا سوال اٹھانے کی بھی کسی میں ہمت نہیں مگر نقادوں کی رائے میں طاقتور گملوں میں پیدائش اور تربیت و توانائی حاصل کرنےکےبعد اسی شجرِ سایہ دار کو کاٹنے کی کوشش عوام کو بےوقوف بنانےاور خود کو دھوکہ دینےکےسوا کچھ نہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے مفاد کے تحفظ کی ضامن حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن ہوتی ہےمگر ایسا پاکستانی جمہوریت میں نہیں ہوتا۔سیاسی مبصرین کی نظر میں پی ڈی ایم کےحکومت واسٹیبلشمنٹ کو لڑانے اور ڈھیر کرنے کے خیالی پلائو نے اپوزیشن کی ساکھ اور عوامی اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔حکومت نےاگر عام آدمی کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور مسائل کےحل میں فعالیت نہیں دکھائی تو اپوزیشن بھی ان کے حقوق کی پاسداری میں مکمل ناکام رہی ہے ، تاریخ پر تاریخ دینے اور ہر محاذ پر ناکامی کے بعداب فرسٹریشن اور پریشانی میں مارچ میں لانگ مارچ کی تاریخ دینا ڈیمج کنٹرول اور 11پارٹی مفادات کےباعث اندرونی اختلافات پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔واضح ہوچکاہے کہ استعفوں اور عدم اعتماد لانے کا بنیادی ٹارگٹ سینٹ انتخابات کو ہرصورت رُکوانا اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنا تھا مگر باہمی لڑائی اور اقتدارکی جنگ نےجگ ہنسائی کیساتھ ساتھ اصولوں کی سیاست کی ناموس کوبھی پامال کردیا ہے۔ اپوزیشن کے ایک سینئر رہنما اعتراف کرتے ہیں کہ اپوزیشن کی بظاہربڑی کامیابی صرف ایک ہےکہ پی ڈی ایم اپنےمقاصد کے حصول میں ناکامی کےباوجود ابھی تک برقرار ہے، البتہ اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی کامیاب نہ ہونے سے حکومت مضبوط ہوئی ہے،ناکامی کی بڑی وجہ باہمی کمٹمنٹس پر قائم نہ رہنا، اپوزیشن قیادت کی سیاسی مجبوریاں اور اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ رابطے بھی ہیں۔ ان کےمطابق اپوزیشن اتحاد کی حالیہ بیٹھک میں پہلی بار اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہونے والےمولانا فضل الرحمٰن چھائے رہے، اجلاس میں حکومت گرانے کیلئے کسی بڑے نکتے پر متفق نہ ہونے کےباوجود بالآخر مزیدہزیمت سے بچنے کا واحد راستہ لانگ مارچ کا اعلان کر کے نکالا گیا۔ تاریخ گواہ ہےکہ لانگ مارچ سے حکومتیں کمزور ہوئیں نہ کبھی ختم ہوئیں۔ مولانا کی حالت پر ان کےقریبی ساتھی حافظ حسین احمد اور مولانا شیرانی جو کچھ کہہ چکے وہ اب تاریخ کا حصہ ہے جس کی خود مولانا نے بھی تردید نہیں کی۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں مولانا کے اپنے اور خاندان کے اثاثوں پر سوالات اٹھ جانے پر راولپنڈی دھرنا دینے کی دھمکی واپس لی گئی بلکہ اسٹیبلشمنٹ مخالف نواز بیانیے کی واضح مخالفت کرتے ہوئے ان سے لڑائی ختم کرنے کا بھی اعلان کردیا، اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کی نئی دفاعی حکمت عملی ’’مستقبل دوبارہ روشن‘‘کرنےکےلئے اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرنے کی کوششیں ہیں جس میں ن لیگ بھی ہمراہ ہے۔پیپلز پارٹی تو پہلے ہی سب کچھ مان کر رعایتیں لے رہی ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ سب پھرایک صفحے پر آچکے ہیں۔ حکومت کوعوام پر ہر روز مہنگائی ، بیروزگاری اور معاشی سختیوں کے مظالم ڈھانے سے روکنے والا نہ پہلے کوئی تھا نہ اب ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ عوام کی ترجمان پارلیمنٹ کو بھی بے وقعت کردیا گیا، جمہوریت و آئین کے علمبردار ادارے پارلیمنٹ میں عوامی مسائل زیر بحث آنے کے سوا پارلیمان کی بے توقیری کاہر کام ہو رہاہے بلکہ اب تو ریسلنگ بھی ہوتی ہے۔عمران خان کے2014کے دھرنے کے دوران نوازحکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مسلسل بلاکر عمران خان کو ڈی چوک چھوڑ کر ایوان میں آکر بات کرنے کیلئے تاکید و اصرارکرتی تھی آج اپوزیشن کچھ ایسا ہی کر رہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہےکہ پارلیمنٹ سے ناکامی کے باوجود سینٹ انتخابی عمل اوپن ووٹنگ کے ذریعے کرانےکاآرڈیننس جاری کرکے حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کئے، اپنے ارکان کوقابو کرنے کے علاوہ اپوزیشن کیلئے ووٹوںکی خریداری کو ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیا ہے۔
بڑی اپوزیشن جماعت کے ایک رہنما کےمطابق حقیقت یہ ہےکہ اپوزیشن کے پاس حکومت ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں کیونکہ طاقت ورکسی صورت موجودہ سیٹ اپ تبدیل کرنے پر راضی نہیں بلکہ واضح پیغام بھی دے دیا گیا ہے کہ مائنس ون یامڈٹرم انتخابات جمہوری سسٹم کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوں گے۔لہٰذا حکومت کوآئینی مدت پوری کرنے دی جائے جس کے بعد اپوزیشن نے سینٹ، بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینےاور 2023 کے عام انتخابات کی تیاری کاغیرا علانیہ فیصلہ کیاہے۔ اپوزیشن گرج برس کر کسی نئے انقلاب کے خواب اورنظام کو تبدیل کرنے کا بھلے جتنے چاہے دعوے کرے مگرسچ یہی ہےکہ لانگ مارچ ہو یا دھرنا اس کا محض مقصد اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں بہتر امیدوار کے طور پر کھوئی ساکھ کی بحالی اور عوام کے حقوق کے دفاع میں ناکامی کےباعث ان کے متزلزل اعتماد کو مضبوط کرنا ہے۔