16معصوم بچے اپنی جان سے گئے…اسکول کا سفر موت کی رہ گزر بن گیا اور بچوں کو قضاکے بے رحم پنجوں سے بچاتے بچاتے بالآخر اسکول ٹیچر بھی زندگی ہار گئی …اور پھر کچھ دیر بعدجنازے اُٹھے،کہرام مچا، ماؤں نے چھاتیاں پیٹیں، تابوتوں پر آنسوؤں کے چھینٹے پڑے، سسکیوں نے صبح کے اُس پہر کی یاد دلائی جب بچے گھر سے تیار ہوکر ، ماں کے بوسوں سے مہکتے ہوئے اسکول روانہ ہوئے تھے اور جزع و فزع نے اُس دوپہرکی شدت کا اعلان کیا جس نے اُنہیں معصوم کلیوں کے کُملانے کی خبر دی تھی…گجرات میں وہ پہلی رات کیسے کٹی ہوگی جب چٹائیوں پر سونے والی ماؤں نے اپنے پہلوؤں کو جگر سے خالی محسوس کیا ہوگا،کتنی دیر تک وہ دلاروں کے سونے کی جگہ کو تکتی رہی ہوں گی، کئی مرتبہ بے دھیانی میں ہاتھ پھیر کے اپنی ہتھیلیوں سے یہ خبر بھی لی ہوگی کہ بچہ سورہا ہے نا! کہیں گرمی سے جاگ تو نہیں گیا؟شاید کسی دیوانی ابھاگن نے تصور میں اپنے ٹکڑے کو کچے فرش پر کروٹیں بدلتے دیکھ کر ہاتھوں سے پنکھا بھی جھلا ہو کہ ”مَیّا قربان جائے اپنے تارے کے جسے آج نیند ہی نہیں آرہی…لگتاہے ماں کی جان نے پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھایا،کتنا کہتی ہوں کہ کھالے بیٹا کھالے مگر اِس کا دھیان تو ہر وقت کھیل ہی میں لگا رہتا ہے ، دیکھو تو سہی کہ کتنا دبلا ہوتا جارہا ہے ،اوپر سے پڑھائی بھی الگ،پھر بستے کا وزن اُٹھانا کیا کم مشقت ہے، اللہ میرے لال کو ہر امتحان میں کامیاب کرے “ …اور یوں ہی دعائیں دیتے دیتے تھکی ہاری ماں کی پھر آنکھ لگ گئی ہوگی۔
سانحے کے بعد ایسے کئی گھر گجرات میں صدمے کی تصویر بنے ہوئے ہیں،اپنوں سے بچھڑنے کی تکلیف ہم کالم لکھنے والے، اخباری رپورٹرز یا ٹیلی ویژن اینکرز اُسی وقت محسوس کرتے ہیں جب اُس کی ٹیس ہمارے دل میں اُٹھتی ہے،جب کوئی اپنا قبر میں اُترتا ہے تب ہی اندر سے درد اُبھرتا ہے …ورنہ یہ سب کیا ہے، ایک ناگہانی،افسوسناک واقعہ اور دردناک حادثہ…بس یہی تو ہے! …کسی کی نگاہ میں غفلت اور کسی کے خیال میں جرم…یہ 17/اموات بھی اپنے اپنے زاویوں سے ہی دیکھی جائیں گی ،شدومد سے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے مطالبے کئے جائیں گے، سی این جی اور پٹرول پر ایک ساتھ گاڑی چلانے کے نقصانات سے آگاہی کے ماہرانہ تجزیوں اور ناصحانہ دُروس کے ایک نہ رکنے والے سلسلے کا آغاز ہوگا…کوئی انتظامیہ پر برسے گا تو کوئی مفرور اسکول مالکان پر لفظوں کے قہر سے بھری بالٹیاں اُلٹے گا، کسی کو سب سے پہلے یہ اطلاع دینے کا موقع ملے گاکہ سب سے پہلے اطلاع تو ہم ہی نے دی تھی تو کوئی پس منظر میں غمگین موسیقی کے ساتھ بکھری ہوئی کتابوں،جلے ہوئے بستوں اور خاکستر وین کے ڈھانچے کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کے ایسے نفیس بُت تراشے گا جنہیں گرانے کے لئے کسی ایسے ہی ایک اور حادثے کی ضرورت ہوگی!…بس چند دن تک کمسنوں کی چہکار سے خالی گھر، محلے سمیت خبروں کی زینت بنے رہیں گے اور پھر اُس کے بعد اسمبلیوں کے اجلاس،وزیراعظم کے انتخاب،کابینہ کی پیش گوئیوں اور حزب اختلاف کی صف بندیوں کی بھاری بھرکم خبروں کے بوجھ تلے ایسے ہی دب جائیں گے جس طرح کل 17تابوت زمین کی گہرائیوں میں دبا دیئے گئے تھے…آپ دیکھ لیجئے گا کہ ملزم عدالت میں یہ ثابت کردے گا کہ ”اُسے کسی بھی بچے نے جلنے کی بو سے خبردار نہیں کیا تھا“ اور کوئی اُس سے یہ نہیں پوچھے گا کہ ”کیوں میاں! کیا تم بچوں کی ناک سے سونگھتے ہو؟ تمہاری اپنی سونگھنے کی حِس کیا طویل رُخصت پر گئی ہوئی ہے ؟“اور رہی کسی معصوم پھول کی گواہی تو جان لیجئے کہ چمن کے قانون میں کسی ایک پھول کی گواہی اِس لئے بھی معتبر نہیں ہے کیونکہ اُس کی خوشبو، پھولوں کی خوشبوؤں کا ایک حصہ ہے ، اُس کا اکیلا مہکنا بھی کوئی مہکنا ہے اور کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ اِتنے گلوں میں بس ایک وہی مہکا ہے !!گنتی کے کچھ ہی ایام ہیں اور پھر کیس داخلِ دفتر…زخم بھرنے تلک انتظار ہوگا اور اِس دوران بچوں کے والدین کو حکومت کی جانب سے معاوضے کی ادائیگی کی یقین دہانیاں…یا یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدائی طور پر قوم کے بعض عظیم رہنما ”تمام تر مصروفیات منسوخ کر کے “دکھی گھرانوں کے غم میں ”برابر کے شریک “ ہونے کے لئے وحدہ لاشریک کے بندوں کے گھر میں معاذ اللہ ”پالن ہار“ بن کے داخل ہو جائیں … اِس کے سوا ہم سب بے حِس اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟یہاں اِس سے پہلے کتنے مدہوشوں کو سزا ملی ہے جو ہم وین ڈرائیور اور اسکول مالکان کے احتساب کے خواب دیکھیں… جنہیں مٹنا تھا وہ مٹ گئے ہاں جو لکھے ہوئے ہیں اُنہیں مٹنے سے بچانے کے راستے ضرور نکل آئیں گے…ابھی تو پنجاب میں حکومت سازی شروع نہیں ہوئی ہے ورنہ اپوزیشن اِس کا الزام حکومت پر عائد کرتی کہ وین چلانے والا ایک سیاسی جماعت کا کارکن تھا اور وہ ڈرائیونگ کے دوران اپنی من پسند جماعت کے گیت سننے میں محو تھا…اِسی طرح حکومت کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ جو وین حادثے کا شکار ہوئی ہے وہ دراصل انتخابات کے دوران ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو لانے اور لے جانے میں اِس بری طرح استعمال کی گئی کہ اُس کی سی این جی کی نالیوں میں سوراخ ہوگئے تھے جہاں سے گیس لیک ہورہی تھی اور اِس وین کے مالکان اُسی سیاسی جماعت کے علاقائی عہدیدار بھی ہیں…اور یوں شاید یہ سانحہ الزامات کی گرد میں دھندلا کر رہ جاتا مگر اب بھی کیا ہے ؟ پانچ پانچ لاکھ روپے سے غم خرید لئے گئے ہیں…ہمارا پاکستان بھی اپنی مثال آپ ہے یہاں زندگی کی تو کوئی قیمت نہیں البتہ موت کی ایک پرکشش قیمت مقرر ہے …حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں تو مخلوقات کے طبقات تھے مگر یہاں انسان صرف دو درجوں میں تقسیم ہیں، ایک وہ جو جینا اپنا حق سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں موت کے سوا کچھ اور منتخب کرنے کا اختیار ہی نہیں…البتہ یہ آزادی اُنہیں یقینا حاصل ہے کہ وہ چراگاہ میں بے فکری سے گھوم سکتے ہیں کیونکہ یہ شکاری پر منحصر ہے کہ وہ اُن کی ٹارگٹ کلنگ کرے، خودکشی پر مجبور کرے ، غیرت کے نام پر ذبح کرے ، خوارج کا روپ اختیار کر کے خود کش دھماکا کرے ، منہ پر تیزاب پھینکے ،کارے کے ساتھ کاری کو زندہ دفن کرے ، کیمیکل پھینک کر آگ لگائے اور رقصِ بسمل سے لطف اندوز ہو یا پھر کسی حادثے کی شکل میں کسی کو ابدی نیند سلائے۔
آٹھ گاؤں کے تین سے بارہ سال تک کے بے گناہ بچے جھلستے ہوئے تڑپے تو بہت ہوں گے لیکن اب آرام سے سورہے ہیں، بے شک اُن کی قبور میں اُجالے ہیں،روشنیوں کی ایک دلفریب کہکشاں اُنہیں مبہوت کئے دے رہی ہوگی، کتنے اچھے تھے وہ کہ اُنہیں ہم سب سے چھٹکارہ مل گیا،مقروض باپ کا چہرہ دیکھ کر وہ مرجھا جاتے تھے،ماں کے ہاتھوں میں چھالے اُن کے دلوں کو زخمی کئے دیتے تھے پَر اب اُنہیں سکون ہے …ابّا کو اُن کی فیس بھرنے کے لئے جاگیرداروں کی مزید غلامی تو نہیں کرنا پڑے گی نا…اور اماں نے جو مزید چار گھروں میں کام شروع کردیا تھا، اب وہ جھڑکیاں بھی ختم ہوجائیں گی…اور وہ اسکول ٹیچر…جو ایثارووفا کے نہ بجھنے والے چراغ جلا گئی اُسے بھی تو کتنی بھرپور نیند آئی ہے ، غمِ روزگار نے تو اُس سے اُس کا سکون ہی لوٹ لیا تھا، آج تو وہ بھی چین سے سو رہی ہے …اچھا ہی ہوا کہ تم سب سو گئے،بہتر ہوا کہ شہادت نے بانہیں پھیلا کر تمہیں اپنی آغوش میں ماں کی طرح چھپالیا…یہاں جاگنے کا فائدہ بھی کیا تھا، یہاں تو جنہیں جاگنا چاہئے وہ سو رہے ہیں اور جنہیں اطمینان سے سونا چاہئے وہ جاگ رہے ہیں اور تم اِن کے ہوتے ہوئے کبھی پُرسکون نندیا کی وادی میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے…اللہ تمہیں غریقِ رحمت کرے اور تمہارے ماں، باپ کو یہ صدمہ جھیلنے کی قوت عطا کرے…اللہ تمہاری قبروں کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے اور روزِحشر تمہیں اپنے پیاروں سے اُسی جنت میں ملا دے…لوگوں نے یہ تو سیکھ لیا ہے کہ ہوا میں پرندوں کی طرح کیسے اڑاجاتا ہے اور دریا میں مچھلیوں کی طرح کیسے تیرا جاتا ہے …کاش! وہ یہ بھی جان لیتے کہ زمین پر انسانوں کی طرح کیسے رہا جاتا ہے …اے کاش! وہ بس یہی جان لیتے …!!!