• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن آف پاکستان کےایوان بالا کےانتخابی شیڈول سے متعلق اعلان کے مطابق 3مارچ کو قومی اورچاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے 48امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آج آخری تاریخ ہے 14فروری کو امیدواروں کی فہرست جاری ہوگی۔ 15اور 16کو کاغذات کی جانچ پڑتال جبکہ 18فروری تک کاغذات منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں دائر ہوسکیں گی جن پر فیصلوں کیلئے 20فروری مقرر کی گئی ہے۔ 21فروری کو نظرثانی شدہ فہرست جاری کی جائے گی اور 22تاریخ کو امیدوار اپنے کاغذات واپس لے سکیں گے۔ حتمی فہرستیں 23فروری کو آویزاں ہوں گی جس کے بعد کوئی بھی امیدوار 2 ؍مارچ دن بارہ بجے تک مقابلے سے دستبردار ہو سکے گا۔ پی ٹی آئی حکومت نے متذکرہ الیکشن اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت کرانے کا اعلان کر رکھا ہے جس کے لئے سپریم کورٹ کی رولنگ کی روشنی میں آئین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ میں مسودہ قانون پیش کیا گیا تھا لیکن وہاں دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے سے یہ بل منظور نہ کرایا جا سکتا۔ حکومت نے متبادل کے طور پر صدارتی آرڈی ننس جاری کیا جو بہرحال سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط ہے۔ چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ مقررہ شیڈول کے مطابق اپنے اقدامات جاری رکھے۔ جہاں تک پولنگ کا تعلق ہے کہ آیا یہ خفیہ یا اوپن بیلٹنگ کی بنیاد پر ہو گی اس حوالے سے عدالت وقت مقررہ سے پہلے اپنا فیصلہ سنا دے گی۔یہ صورتحال اس لئے بھی پیش آئی کہ صدارتی آرڈی ننس آنے پر پی ڈی ایم نے اسے مسترد کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا جو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجربنچ کے زیر سماعت ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ اگر متذکرہ انتخابات صدارتی آرڈیننس کی رو سے ہو جاتے ہیںاور آرڈیننس منسوخ ہو جاتا ہے تو پھر پورا الیکشن ہی کالعدم ہو جائے گا انہوں نے الیکشن کمیشن کے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری بیان کا حوالہ دیا کہ جب تک آئینی ترمیم نہ ہو اوپن بیلٹ سے یہ الیکشن نہیں کروائے جا سکتے۔ ایسی ہی آرا بعض مزید حلقوں کی جانب سے بھی آئی ہیں تاہم حکومت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹنگ سے کرانے سے ووٹ بکیں گے جس سے اصلاحات کا عمل رکے گا۔ جبکہ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ خفیہ بیلٹنگ میں رائے دہندگان ہر قسم کے دبائو اور خوف سے آزاد ہوکر اپنے ضمیر کے مطابق رائے دے سکتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں بہرحال اپنی اپنی جگہ اہم ہیں جبکہ اصل معاملہ قومی امور پر ذاتی مفاد کی ترجیحات کا ہے جس کی گزشتہ دو عشروں میں حوصلہ افزائی ہوئی ہےاور فی الحقیقت جہاں کرپشن اور فلور کراسنگ جیسے جمہوریت کی شکل مسخ کرنے والے منفی عوامل سے نمٹنے کیلئے دنیا بھر میں آئینی اصلاحات کا رجحان بڑھا ہے وطن عزیز میں یہ معاملہ محض ایک نعرے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ ملک میں جمہوریت کا ارتقائی عمل جاری ہے جس کی تکمیل کیلئے سیاست میں تدبر، تحمل اور شائستگی بہرحال ضروری ہیں لیکن اس کے برعکس گزشتہ ہفتےقومی اسمبلی کے اجلاس میں جو فضاپیدا ہوئی اس سے قوم کے سر شرم سے جھک جانا تعجب خیز بات نہیں جبکہ کرپشن ہمارے نظام میں رچ بس گئی ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی، بڑھتے ہوئے معاشی جرائم ایسی صورتحال سے ہوا پاتے ہیں۔ سینیٹ ملک کا معزز ترین ایوان ہے جس کا انتخاب بھی منتخب عوامی نمائندے ہی کرتے ہیں معزز ایوانوں کی سربلندی من حیث القوم ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ جس کے لئے ایسے قوانین کی ضرورت ہےکہ الیکشن کسی بھی سسٹم کے تحت ہوں شفافیت کو زد نہ پہنچنے پائے۔

تازہ ترین